پیرس یورپ کی نئی سیلیکون وادی بنتا ہوا
2 جنوری 2017پیرس کے مضافاتی قصبے ’لاکُورنَوو‘ کے ایک ویئر ہاؤس میں معمول کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ ایک درجن کے قریب نوجوان مردوں اور خواتین نے سفید اوورکوٹ پہنے ہوئے ہیں اور وہ پلاسٹک کے ٹب دھو رہے ہیں، کمپیوٹر اسکرینوں پر مختلف تصاویر کا معائنہ کرتے ہیں، یا پھر ایک بڑے سے سفید کنٹینر میں آ جا رہے ہیں۔ دروازہ کھلے تو کبھی کبھی اس کنٹینر میں گلابی رنگ کی روشنی دکھائی دیتی ہے یا پھر کوئی ہاتھوں میں اسٹرابیری کا ڈبہ لیے باہر نکلتا نظر آتا ہے۔
ماہرین کی اس ٹیم کو ایک نئے کمپنی ’ایگریکُول‘ (Agricool) کا دل کہنا غلط نہ ہو گا۔ یہ کمپنی زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یعنی ایسے پھل اور سبزیاں جو کنٹینروں میں اگائے گئے ہوں اور وہ بھی شہر کے عین وسط میں۔ یہ کمپنی ’ایگریکُول‘ ان بہت سی نئی قائم ہونے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے، جو فرانسیسی دارالحکومت پیرس کو یورپ کی نئی سیلیکون وادی بنا سکتی ہیں اور جنہیں اقتصادی ماہرین ’اسٹارٹ اپ‘ کمپنیوں کا نام دیتے ہیں۔
’پھلوں کی جنت‘
اس کمپنی کی بنیاد گِیلوم فوردینیئے اور گونزاگ گرُو نامی دو افراد نے رکھی، جو دونوں ہی کسانوں کے بیٹے ہیں اور فرانس کے زیادہ تر زرعی پس منظر والے دیہی علاقے میں پلے بڑھے۔ فوردینیئے نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جب ہم رہائش کے لیے شہر میں منتقل ہوئے تو یہ حقیقت ہمارے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئی کہ دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہروں میں مختلف پھلوں کے ذائقے کتنے برے ہوتے ہیں۔‘‘
گِیلوم فوردینیئے کہتے ہیں، ’’اپنے کاروباری تصور کے ساتھ ہم اس حقیقت کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے کنٹینروں میں اسٹرابیری جیسے پھلوں کے لیے بہترین حد تک سازگار ماحول تیار کرتے ہیں۔ مناسب روشنی، بہترین درجہ حرارت اور نمی کی مثالی شرح۔ اس طرح یہ کنٹینر بہت اچھے ذائقے والے پھلوں کی پیداوار کے حوالے سے جنت ثابت ہوتے ہیں، اور ہم جراثیم کش زرعی ادویات بالکل استعمال نہیں کرتے۔‘‘
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ان پھلوں اور سبزیوں کی کاشت اور پیداوار کے دوران استعمال ہونے والی بجلی صرف توانائی کے ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔ پھر شہر میں ان کنٹینروں کا فاصلہ چونکہ خریداروں اور صارفین سے انتہائی کم ہے، اس لیے دیہی علاقوں میں اگائے جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے مقابلے میں ان کی پیداوار پر وسائل بھی سات گنا کم استعمال ہوتے ہیں۔
کامیابی کے روشن امکانات
ایگریکُول نامی یہ کمپنی صرف ایک سال پہلے قائم کی گئی تھی اور اب تک اس کے بانی مختلف نجی سرمایہ کاروں سے اپنے اس منصوبے کے لیے چار ملین یورو جمع کر چکے ہیں۔ فوردینیئے کے بقول اس طرح کمپنی کو تیز رفتاری سے اپنے منصوبوں پر کام کرنے میں بہت مدد ملی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی طرز زراعت کی کامیابی کا ان ملکوں میں امکان خاص طور پر زیادہ ہے، جہاں بہت زیادہ گرمی، بہت زیادہ سردی یا پھر ہوا بہت زیادہ آلودہ ہوتی ہے۔ اس طرح کے اولین زرعی پیداواری کنٹینر یہ کمپنی اگلے سال مختلف فرانسیسی شہروں میں ایک فرنچائز نظام کے تحت نصب کر دے گی۔
ایگریکُول فرانسیسی دارالحکومت اور اس کے مضافات میں سرگرم ہزاروں اسٹارٹ اپ کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ان اداروں نے 2016ء کی پہلی ششماہی کے دوران اپنے منصوبوں پر مجموعی طور پر ایک بلین یورو سے زائد کے مالی وسائل خرچ کیے۔ اس وقت اس طرح کے جدت پسندانہ کاروباری تصورات کو حقیقت کا روپ دینے کی کوششوں کے حوالے سے یورپ میں صرف برطانوی دارالحکومت لندن پیرس سے آگے ہے۔
سٹارٹ اپ کلچر نیا ہے
پیرس ہی میں اپنا کاروباری سفر جاری رکھنے والے ایسے ہزاروں اسٹارٹ اپ اداروں میں سے ایک اور اَیسٹِس (Estis) بھی ہے، جو خاص طور پر آرڈر پر تیار کردہ فرنیچر کم قیمت پر فروخت کرنے والی ایک کمپنی ہے۔ اس کمپنی کے بانیوں میں سے ایک آرتھر ہَو کہتے ہیں، ’’فرانس میں ہم ابھی تک سٹارٹ اپ کمپنیوں کے کلچر کے عادی نہیں ہوئے۔ کارکنوں کی تلاش بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ پھر جب تک ریاست عملی طور پر کوئی مالی اعانت فراہم کرتی ہے، تب تک متعلقہ کمپنی کو اپنی مصنوعات تیار کیے ہوئے عرصہ ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘
اسٹیشن ایف
فرانس میں سٹارٹ اپ کمپنیوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے لیے قائم مرکز کا نام ’اسٹیشن ایف‘ ہے، یعنی ’اسٹیشن فرانس‘۔ اس مرکز کی ڈائریکٹر روکسَین وارزا کہتی ہیں، ’’ہم سٹارٹ اپ کمپنیوں کے کارکنوں کے لیے 600 فلیٹ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مقصد نوجوان کاروباری شخصیات کو فرانسیسی معاشرے میں ضم کرنے کی کوششوں کو بہتر بنانا ہے۔‘‘
یہ مرکز ایک انٹرنیٹ بزنس مین زاویئر نیل کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس پروموشن سینٹر کے 34 ہزار مربع میٹر رقبے میں ایک ہزار سٹارٹ اپ کمپنیاں اپنے دفاتر اور تجرباتی پیداواری یونٹ قائم کر سکتی ہیں۔‘‘