پیزا میں بیف بہت کم ہونے پر پانچ ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ
3 اگست 2023
امریکہ میں نیو یارک کے ایک شہری نے ایک بڑی فاسٹ فوڈ چین کے خلاف پانچ ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ مدعی کے بقول اس نے ساڑھے پانچ ڈالر کا جو پیزا لیا، اس میں بیف اشتہار میں دکھائے گئے بیف سے تقریباﹰ آدھا تھا۔
ٹاکو بیل شمالی امریکہ میں فاسٹ فوڈ کی ایک بہت بڑی چین ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Diaz
اشتہار
عدالتی اصطلاح میں امریکہ میں ایسا کوئی بھی مقدمہ 'کلاس ایکشن‘ مقدمہ کہلاتا ہے اور یہ دعویٰ نیو یارک شہر کے ایسٹرن دسٹرکٹ کی ایک عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ مدعی کا نام فراینک سیراگوسا ہے اور اس کے مطابق اس نے ٹاکو بیل نامی فاسٹ فوڈ چین سے اپنے لیے جو میکسیکن پیزا خریدا، اس کی فروخت میں یہ کمپنی 'غلط تشہیر‘ کی مرتکب ہوئی۔
اشتہار
جھوٹی کاروباری تشہیر
فرینک سیراگوسا نے اپنے دعوے میں کہا ہے کہ اس نے گزشتہ برس ستمبر میں ٹاکو بیل کی ایک مقامی شاخ سے اپنے لیے جو میکسیکن پیزا آرڈر کیا، اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا۔ اس کے بقول اس کے پیزا میں بیف اور بینز کی جو فلنگ تھی، وہ اس سے بمشکل آدھی تھی، جتنی کہ اس کمپنی کے اسی پیزا کے اشتہارات میں دکھائی گئی تھی۔
امریکہ میں میکسیکن فوڈ بھی بہت زیادہ کھائی جاتی ہےتصویر: Katja del Solar
سیراگوسا کے وکیل نے اس قانونی دعوے میں لکھا ہے کہ اس کے مؤکل کے ساتھ اس پیزا کی فروخت کے عمل میں 'جھوٹی تشہیر‘ سے کام لیا گیا۔ اس کے علاوہ فرینک سیراگوسا کی طرف سے مزید لکھا گیا ہے، ''اگر مجھے علم ہوتا تو میں 5.49 ڈالر کا یہ پیزا کبھی نہ خریدتا۔‘‘
ٹاکو بیل (Taco Bell) کے خلاف اسی ہفتے دائر کردہ مقدمے میں سیراگوسا نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے ساتھ جس ''غیر منصفانہ اور دھوکہ دہی پر مبنی کاروباری رویے‘‘ کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے الزالے کے لیے ٹاکو بیل اسے کم از کم بھی پانچ ملین ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔
نیو یارک کے اس شہری کا ٹاکو بیل کے خلاف یہ مقدمہ اس کمپنی کو اس لیے انتہائی مہنگا پڑ سکتا ہے کہ امریکہ میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ''کاروبار کی غلط تشہیر اور تجارتی دھوکہ دہی‘‘ بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔
انسانی خوراک پر عالمی چیلنجز کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ جرمنی میں حفظانِ صحت کے میوزیم میں ’فیوچر فوڈ: ہم مستقبل میں کیا کھائیں گے؟‘ کےعنوان سے جاری نمائش میں خوراک کے ماضی اور مستقبل کے منفرد پہلو پیش کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: IzumiMiyazaki
آزادی کے لیے شکر کا بائیکاٹ
شکر کا بائیکاٹ، جو سن 1791 میں شروع کیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ صارفین کی جانب سے یہ تاریخ کا پہلا بائیکاٹ تھا۔ اس وقت شکر انگریزوں کے غلاموں کی تجارت کی ایک علامت بن چکی تھی۔ اس تصویر میں، کارٹونسٹ آئزک کروکشانک نے اس وقت کے اُن رئیسوں کا مذاق اڑایا تھا، جو خود کو فریڈم فائٹر کہتے تھے لیکن ان کی میٹھی چائے کسی کے لیے ماتم کا سبب تھی۔
تصویر: The Trustees of the British Museum
ایک غیر صحت بخش رجحان: 1902ء کے کوکوائیوورس
سن 1902 میں سبزی خور اگست اینگل ہارٹ نے جرمن نوآبادیاتی سلطنت کے ایک حصے جرمن نیو گنی میں ناریل کے پودے لگائے۔ چونکہ ناریل کا درخت اونچا اور سورج کی طرف بڑھتا ہے، لہٰذا اسے یقین تھا کہ یہ بہت مفید ہے۔ اینگل ہارٹ نے سورج کے پرستاروں کے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھی جو کوکوائیوورس تھے، وہ صرف ناریل پر مشتمل خوراک کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے بہت سے پیروکار جلد ہی فوت ہوگئے۔
تصویر: Archiv Dieter Klein
سویا سوسیج کس نے ایجاد کیا؟
زیادہ سے زیادہ لوگ سبزی خور بن رہے ہیں، لہذا کھانے کی صنعت گوشت کے مختلف متبادل تیار کر رہی ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا رجحان نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، اس وقت کے ڈائریکٹر فوڈ سپلائی اور بعد میں پہلے جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے لوگوں کو پروٹین سے بھرپور کھانا فراہم کرنے کے لیے سویا سوسیج ایجاد کیا تھا۔
تصویر: Archiv der Stiftung Bundeskanzler-Adenauer-Haus
دور اندیش منصوبہ بندی: ٹاور گرین ہاؤس
آسٹریا کے ایک انجینئر اوتھمار روتھنر نے سن 1964 میں ویانا انٹرنیشنل گارڈن شو کے دوران اپنا ’ٹاور گرین ہاؤس‘ پیش کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اکتالیس میٹر اونچے گلاس ٹاور میں پھول اور سبزیاں کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں آبپاشی کا نظام اور کھاد مکمل طور پر خودکار تھے۔ دور حاضر میں روتھنر کی اس تکنیک کو ’عمودی کاشت کاری‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: Gartenbauschule Langenlois
مرغی کے سستے گوشت کی درآمد کی مخالفت
جب سے یورپ اور امریکا نے سستے داموں پر افریقی ممالک میں گوشت برآمد کرنا شروع کیا ہے تب سے گھانا کے مقامی پولٹری فارم معاشی تنگی کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ افریقہ کے مقامی پولٹری فارمز مارکیٹ میں صرف پانچ فیصد گوشت فروخت کر پاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مہم لوگوں کو مقامی سطح پر تیار کردہ چکن استعمال کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
تصویر: Eat Ghana chicken
دنیا کا سب سے شفاف چکن
بڑے پیمانے پر گوشت کی پیداوار کی بجائے زیادہ سے زیادہ صارفین اب نامیاتی خوراک کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تاہم، جانوروں کے بارے میں معلومات عام طور پر کھانے کے ڈبوں پر دستیاب نہیں ہوتی۔ ’بلاک برڈ‘ نامی کمپنی ذبح کی گئی مرغی کے بارے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تمام تر تفصیلات جاری کرتی ہے۔
تصویر: The Future Market
پانی پر ایک گائے کا فارم
شہری علاقوں میں کھیت کھلیان اور مویشی محدود تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ میں اس کا ایک متبادل تیار کیا گیا: مندرجہ بالا تصویر روٹرڈام کی بندرگاہ میں تیرتے ڈیری فارم کی ہے۔ پانی پر قائم یہ ڈیری فارم نہ صرف زمین بچاتا ہے بلکہ گائے کے دودھ کی نقل و حمل کو بھی قدراﹰ آسان بناتا ہے۔
تصویر: Floating Farm
چھ ٹانگوں والی خوراک
یورپی یونین میں سن 2018 سے کچھ کیڑوں کو خوراک میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر، پروٹین سے بھرپور رات کے جھینگر خشک، نمکین یا پاؤڈر کی صورت میں بڑے پیمانے پر کھانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Lothar Sprenger
دلکش اور لذیذ ناشتہ
فوٹوگرافر مائیکل زی سن 2013 سے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے اور اپنے ساتھی کے لیے تیار کردہ ناشتے کی تصویر شائع کر رہے ہیں۔ ہر بار، وہ ترتیب و متوازن انداز میں کھانا پیش کرتے ہیں۔ اس طرح زی، روزمرہ کی زندگی میں رشتوں کی دیکھ بھال میں چھپی خوبصورتی اور کھانے کی متنوع ثقافت کا جشن مناتے ہیں۔
تصویر: Michael Zee
ایسے برتن جو کھانے کا مزہ دوبالا کردیں
جنوبی کوریا کے ڈیزائنر جنہیان جیون کھانا چکھنے کے احساس کو بڑھانے کے لیے منفرد چمچ تخلیق کرتے ہیں۔ ذائقہ چکھنے کے تجربے کو خاص بنانے کے لیے وہ چمچوں کو مختلف درجہ حرارت، رنگ، ڈیزائن، سائز اور انداز بخشتے ہیں۔
تصویر: Jinhyun Jeon
کھانا ایک لائف اسٹائل
لذیذ طعام سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مختلف پکوان کے ذائقے سے لطف اندوز ہونا، کیا مستقبل میں یہ ممکن ہوگا؟ ڈریسڈن میں واقع جرمن حفظان صحت میوزیم میں اس سوال سے متعلق ایک منفرد نمائش جاری ہے۔ یہ نمائش اکیس فروری 2021ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: Oliver Killig
11 تصاویر1 | 11
مقدمہ ٹاکو بیل کے بہت سے ناراض صارفین کی طرف سے بھی
یہ مقدمہ ایک 'کلاس ایکشن لاء سُوٹ‘ اس لیے بھی ہے کہ فرینک سیراگوسا نے یہ قانونی دعویٰ اپنے علاوہ ان تمام دیگر صارفین کی طرف سے بھی دائر کیا ہے، جنہیں اس وجہ سے بہت ناامیدی ہوئی کہ ٹاکو بیل نے اعلان کردہ قیمت پر اپنے میکسیکن پیزا کی فلنگ میں جو کچھ اور جتنا کچھ دکھایا، وہ مبینہ طور پر ان گاہکوں کو مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں اپنے موقف کو زیادہ مضبوط بنانے کے لیے سیراگوسا نے جو دستاویزات عدالت کو مہیا کی ہیں، ان میں ٹاکو بیل کے اشتہارات میں دکھائے گئے پیزا کی تصویریں بھی ہیں اور ان پیزوں کی تصاویر بھی، جو کئی صارفین نے اس لیے بنائی تھیں کہ ان میں بیف اور بینز بہت ہی کم تھے۔
یہ مقدمہ دائر کیے جانے کے بعد نیوز ایجنسی اے ایف پی نے جب ٹاکو بیل سے اس کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا، تو اس کمپنی کی طرف سے کسی بھی تبصرے سے انکار کر دیا گیا۔ اس مقدمے میں عدالت کی طرف سے کوئی فیصلہ سنائے جانے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
م م / ش ر (اے ایف پی)
میکسیکو کے زیر زمین آبی غار
میکسیکو میں سیلابی یا پانی سے بھرے غاروں کا ایک طویل سلسلہ دریافت کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
میکسیکو میں پانی سے بھرے غاروں کا ایک طویل سلسلہ دریافت کیا گیا
تصویر: Reuters/Herbert Mayrl/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
زیر زمین سیلابی غاروں کا یہ سلسلہ 347 کلو میٹر طویل ہے
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
جرمن غوطہ خور رابرٹ شمٹنر کی قیادت میں ایک ٹیم نے گزشتہ دس ماہ کے دوران ان زیر زمیں غاروں میں سفر کیا
تصویر: Reuters
میکسیکو کا یہ علاقہ قدیم مایا تہذیب کا ایک اہم مرکز بھی تھا
تصویر: picture-alliance/M. Mara
زیر زمین سرمائے میں چھپے رازوں کو پرکھ کر مایا تہذہب کے بارے میں بھی نئی معلومات منظر عام پر آئیں گی
تصویر: Reuters/Jan Arild Aaserud/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
جرمن غوطہ خور رابرٹ شمٹنر، جنہوں نے اپنی زندگی کے چودہ برس اس منصوبے کے لیے صرف کیے
تصویر: Reuters/D. Becerril
رابرٹ شمٹنر کے مطابق ان غاروں کو محفوظ بنانا سبھی کی ذمہ داری ہے
تصویر: Reuters/Herbert Mayrl/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
غاروں کا زیر زمین سلسلہ میکسیکو کے جزیرہ نما یُکاتان سے طولوم تک پھیلا ہوا ہے