پیشاب سے کاشت کردہ فصلیں، آپ ایسی خوراک کھانا پسند کریں گے؟
5 مئی 2022چند برس قبل بھارت کے مرکزی وزیر نیتن گڈکری نے کہا تھا کہ وہ اپنے باغیچے میں پودوں کی سینچائی پیشاب سے کرتے ہیں۔ اس بیان پر بھارت میں کافی بحث بھی ہوئی تھی۔ لیکن یہ جان کر آپ کو شاید حیرت ہو کہ دنیا کے کئی ملکوں میں پیشاب سے سینچائی کا میکانزم تیار کرنے پر کام ہورہا ہے۔سائنس داں یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دنیا کی بھوک مٹانے کے لیے اس طرح کی کوشش کتنی سود مند ہوسکتی ہے۔
فصلوں کے لیے انسانی پیشاب کو کھاد کے طورپر استعمال کی بات آج کے جدید صنعتی دور میں عجیب لگتی ہے لیکن کیمکلز پر انحصار اور ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے طریقوں کی تلاش کرنے والے بعض محققین انسانوں کے پیشاب کے فائدوں میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔
پیشاب میں نائٹروجن، پوٹاشیم اور فاسفورس
اسکیولر فرانس میں او سی اے پی آئی ریسرچ پروگرام چلاتے ہیں جس میں غذائی نظام اور انسانوں کے پیدا کردہ کچروں کے انتظام و انصرام پر تحقیقات کا کام ہوتا ہے۔ اسکیولر کہتے ہیں "ہمارے کھانے میں یہ تمام چیزیں ہوتی ہیں جنہیں ہم پیشاب کے ذریعہ جسم سے خارج کرتے ہیں اور سائنس دانوں کولگتا ہے کہ اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔"
تقریبا ً ایک صدی سے زراعت میں زیراستعمال فرٹیلائز میں مصنوعی نائٹروجن ہوتا ہے۔ اس سے پیداوار بڑھانے میں اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد بھی ملی۔لیکن بڑے پیمانے پر ان کے استعمال کے سبب ندیوں اور دیگر آبی ذخائر آلودہ ہونے لگے اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر آبی حیاتیات کی موت کا سبب بن گئے۔
ماحولیاتی آلودگی
اقو ام متحدہ کے مطابق کھیتوں سے نکلنے والا امونیا گاڑیوں کے دھوئیں سے مل کر خطرناک ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن گیا۔فرٹیلائزر طاقت ور گرین ہاوس گیس نائٹرس آکسائیڈ بھی خارج کرتے ہیں اور ماحولیات کو خراب کرنے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں حالانکہ یہ آلودگی کھیتوں سے براہ راست نہیں آتی ہے۔
یونائٹیڈ اسٹیٹ رِچ ارتھ انسٹیٹیوٹ کی جولیا کاواچی کا خیال ہے کہ جدید دور میں صفائی ستھرائی کے جو طریقے ہیں وہ آلودگی کے بنیادی ذرائع ہیں۔وہ کہتی ہیں،" گندے پانی میں موجود 80 فیصد نائٹروجن اور نصف سے زیادہ فاسفورس کا ذریعہ پیشاب ہے۔ " انہوں نے مزید بتایا کہ کیمیاوی کھاد کی جگہ پیشاب کا استعمال کرنے کیے اسے کئی گنا وزنی بنانے کی ضرورت ہوگی۔
کواچی کے مطابق" مصنوعی نائٹروجن گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے، دوسری طرف فاسفورس کی مقدار محدود ہے اور یہ قابل تجدید نہیں ہے۔ایسے میں پیشاب کا استعمال کرنے والے میکانزم، انسانی بول و براز کا انتظام و انصرام اور زرعی پیداوار کے لیے ایک طویل مدتی ماڈل پیش کرتے ہیں۔"
پیشاب کو جمع کرنے کا میکانزم
سن 2020میں ایک مطالعہ کے دوران اقو ام متحدہ کے محققین نے پتہ لگایا تھا کہ گندے پانی میں اصولی طورپر دنیا بھر کی زراعت کے لیے 13فیصد نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم کی مانگ کو پورا کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن پیشاب کوسینچائی کے لیے استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ بتایا جارہا ہے۔
ایک زمانے میں انسانوں کے فضلات اور جانوروں کے فضلات کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا لیکن کیمیاوی متبادل نے دھیر ے دھیرے ان کی جگہ لے لی اور اب اگر انہیں دوبارہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا جائے تو ٹوائلٹس اور سیوریج سسٹم کے بارے میں از سر نوغور کرنا ہوگا۔
سویڈن میں سن 1990کے عشرے میں اس پر ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ اس کے لیے سب سے پہلے ایکو ویلیج کی نشاندہی کی گئی۔ اب اس طرح کے پروجیکٹ سوئٹرز لینڈ، جرمنی، امریکہ، جنوبی افریقہ، بھارت، ایتھوپیا، میکسیکو اور فرانس میں چلائے جارہے ہیں۔
سوئٹرز لینڈ کے ایواگ ایکویٹک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ٹوو لارسن بتاتی ہیں،"ایکولوجیکل اختراعات اور بالخصوص پیشاب کو الگ کرنے جیسی اختراعات استعمال کرنے والے ٹوائلٹ بھدے اور غیر عملی سمجھے گئے اور بدبو کی وجہ سے ان پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ حالانکہ نئے ماڈل سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔
سوئس کمپنی لاوفین اینڈ ایواگ نے نئے قسم کے ماڈل تیار کیے ہیں جن میں ایک کپ لگا ہوتا ہے جوپیشاب کو علیحدہ کنٹینر میں پہنچادیتا ہے۔ پیشاب جمع کرنے کے بعد اسے پراسیس کیا جاتا ہے۔ بالعموم پیشاب سے بیماریاں دوسری جگہ منتقل نہیں ہوتی ایسے میں ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اسے کچھ وقت کے لیے اسی طرح رکھا جاسکتا ہے البتہ اسے پاسچورائز کرنے کا متبادل بھی موجود ہے۔ اس کے بعداسے گاڑھا کرنے یا پھر خشک کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس کے ذریعہ انہیں کھیتوں تک لے جانے کا خرچ بھی کم ہوجاتا ہے۔
پیشاب کے نام پر کراہیت تو ہوتی ہی ہے!
دوسرا سب سے بڑا چیلنج لوگوں کے طبع نازک پر گراں گزرنے والی پیشاب کی کراہیت ہے۔ فرانس میں پبلک ٹوائلٹ اسکیم چلانے والی ایک ایجنسی پیرس اے میٹروپول امینجمنٹ سے وابستہ گیسلین مرسیاں کہتے ہیں کہ یہ ایک جذباتی مسئلہ ہے۔
ایجنسی فرانس کے دارالحکومت میں ایک ایکو ڈسٹرکٹ تیار کررہی ہے جس میں دکانوں اور 600مکانات کو شامل کیا گیا ہے۔ یہاں پیشاب کو جمع کرکے شہر کی ہریالی کے لیے کھاد کے طورپر استعمال کیا جائے گا۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا لوگ اس سے آگے کے مرحلے تک جانے کے لیے ذہنی طورپر تیار ہیں۔ یعنی کیا وہ پیشاب سے سینچی کی گئی فصلوں کو کھانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اس معاملے پر ایک اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف ملکوں کے لوگوں کا رجحان مختلف ہے۔ مثال کے طورپر فرانس، چین او ریوگینڈا میں اسے تسلیم کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن پرتگال اور اردن میں بہت کم۔
ایسے میں جب کہ یوکرین پر روسی فوج کے حملے کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کو مستحکم کرنے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں، مرسیئر جسے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک موقع جب پیشاب سے کاشت کی گئی فصلوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کی جاسکتی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)