پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ، ڈچ سیاستدان کا منصوبہ بحال
29 دسمبر 2019
اسلام مخالف ڈچ سیاستدان گیئرٹ وِلڈرز نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کے ایک متنازعہ مقابلے کو بحال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس مقابلے کا فاتح ایک ایسا تاریک خاکہ ٹھہرایا گیا ہے، جس میں ایک باریش شخص نے ایک سیاہ پگڑی پہن رکھی ہے۔
اشتہار
ہالینڈ کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور اسلام کی مخالفت کے لیے مشہور رکن پارلیمان گیئرٹ وِلڈرز نے ایسا ایک متنازعہ مقابلہ کرانے کا اعلان گزشتہ برس بھی کیا تھا مگر پھر اس کے خلاف پرتشدد احتجاج کے خدشے کے باعث یہ مبینہ مقابلہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اب لیکن اس متنازعہ ڈچ سیاسی رہنما نے کہا ہے کہ ایسا ایک مقابلہ منعقد ہو بھی چکا۔
گیئرٹ وِلڈرز نے اتوار اٹھائیس دسمبر کو اعلان کیا انہوں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا جو مقابلہ منعقد کرایا، اس کا نام نہاد فاتح ایک ایسے تاریک خاکے کو قرار دیا گیا، جس میں ایک باریش شخص نے سیاہ پگڑی اور سیاہ قمیص پہن رکھی تھی۔ دی ہیگ کی ڈچ قومی پارلیمان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ گیئرٹ وِلڈرز نے اس موقع پر کہا، ''آزادی اظہار کو پرتشدد اور اسلامی فتووں پر غالب آنا ہی ہو گا۔‘‘
گزشتہ مقابلے کی منسوخی
گیئرٹ وِلڈرز نے گزشتہ برس بھی ایسے ہی ایک متنازعہ مقابلے کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اگست 2018ء میں وِلڈرز نے یہ مقابلہ اس وقت منسوخ کر دیا تھا جب ڈچ پولیس نے ایک ایسے 26 سالہ شخص کو گرفتار کر لیا تھا، جس نے اس سیاستدان کے اسلام مخالف نظریات کی وجہ سے اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
’میرے شارلی ایبدو کا وجود ختم ہو گیا ہے‘
03:25
وِلڈرز کے اعلان کردہ پچھلے سال کے اسی متنازعہ مقابلے کے خلاف اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے ممالک میں بہت بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں کے نزدیک ایسے خاکے اس لیے انتہائی اشتعال انگیز ہوتے ہیں کہ اسلام میں روایتی طور پر پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کی ممانعت ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
پرتشدد ردعمل
سن 2005ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار 'ژیلانڈز پوسٹن‘ نے پیغمبر اسلام کا ایک ایسا متنازعہ خاکہ شائع کیا تھا، جس کے خلاف اسلامی دنیا میں شدید احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس ڈینش اخبا رکے ایڈیٹر اور اس کے کارٹونسٹ کُرٹ ویسٹرگارڈ کو قتل کرنے کی کئی کوششیں بھی کی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ سن 2015ء میں ایک مسلح اسلام پسند حملہ آور نے فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں طنزیہ جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر میں فائرنگ کر کے 12 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ فرانسیسی جریدہ اکثر اسلام سمیت مختلف مذاہب سے متعلق طنزیہ مضامین شائع کرتا رہتا ہے۔
یمن میں پیغمبر اسلام کا جشن ولادت
01:24
This browser does not support the video element.
وِلڈرز کے گزشتہ برس کے اعلان پر پاکستان میں ردعمل
گزشتہ برس جب گیئرٹ وِلڈرز نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کے ایک مقابلے کے انعقاد کاا علان کیا تھا، تو پاکستان میں تحریک لبیک نامی اسلام پسند پارٹی کے رہنما خادم حسین رضوی نے وِلڈرز کے خلاف ایک فتویٰ بھی جاری کر دیا تھا۔
تب خادم حسین رضوی نے ایک ایسے احتجاجی مارچ کی قیادت بھی کی تھی، جس میں دس ہزار کے قریب افراد شریک ہوئے تھے۔ یہ مظاہرین ایک ایسا بڑا بینر بھی اٹھائے ہوئے تھے، جس پر لکھا تھا کہ وہ 'پرامن احتجاج‘ کر رہے تھے۔
اس پس منظر میں اتوار اٹھائیس دسمبر کو ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں گیئرٹ وِلڈرز نے لکھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ان کے خلاف فتویٰ جاری کرنے پر پاکستان میں خادم حسین رضوی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
م م / ع ت (اے ایف پی، روئٹرز)
پیغمبر کا بچپن، مہنگی ترین ایرانی فلم
سات سال کے عرصے میں چالیس ملین ڈالر کی لاگت سے پیغمبر اسلام کے بچپن پر بننے والی ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی کی فلم ’محمد‘ کی نمائش جاری ہے۔ اس فلم کو سراہا بھی جا رہا ہے اور ہدفِ تنقید بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: mohammadmovie.com
صدیوں پہلے کا عربستان
فلم ’محمد‘ کا دورانیہ 190 منٹ ہے اور اس میں چَودہ سو سال پہلے کا دور دکھایا گیا ہے، جس میں بے آب و گیاہ پہاڑوں پر بکریاں چراتے چرواہوں کے ساتھ ساتھ اپنے روایتی ملبوسات کے ساتھ ریت کے زرد صحراؤں میں اونٹوں کی سواری کرتے عرب بھی نظر آتے ہیں۔ اس فلم کے لیے ایرانی حکومت نے بھی سرمایہ فراہم کیا۔
تصویر: mohammadmovie.com
بچپن سے لڑکپن تک
اس فلم میں مستقبل کے پیغمبر کی پیدائش سے لے کر اُن کے لڑکپن تک کے دور کو دکھایا گیا ہے۔ اس فلم میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بھی انتہائی مہارت اور محو کر دینے والی معجزاتی کیفیت کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے، جب مکہ میں ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے والے یمنی قبائل پر پرندوں نے کنکریاں پھینک کر حملہ آوروں کے پورے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تھا۔
تصویر: mohammadmovie.com
پیغمبرِ اسلام پر یہ پہلی فلم نہیں
پیغمبر اسلام کی زندگی پر ’محمد‘ دوسری اہم پروڈکشن ہے۔ اس سے قبل شامی نژاد امریکی فلم ساز مصطفیٰ عکاد نے 1976ء میں ’محمد، دا میسنجر آف گاڈ‘ نامی فلم بنائی تھی، جو بالخصوص ایرانی شیعہ کمیونٹی میں ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی پر قریب چالیس برس بعد بنائی گئی اس دوسری اہم ترین فلم پر پہلی فلم کے مقابلے میں تقریباﹰ بیس گنا زیادہ خرچ آیا۔
تصویر: mohammadmovie.com
انتہا پسندی کے خلاف پیغام
فلم کے ڈائریکٹر مجیدی کے مطابق اس فلم کو بنانے کا مقصد اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کا فروغ ہے، جنہیں انتہا پسندوں نے مسخ کر دیا ہے:’’بدقسمتی سے آج کل اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستانہ نظریات، انتہا پسندی اور تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دہشت گرد گروہ دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، جو اصل میں اسلام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Salemi
فلم کی شوٹنگ ایرانی گاؤں میں
ایرانی دارالحکومت تہران سے ستر کلومیٹر جنوب کی جانب ایک گاؤں اللہ یار میں یہ منظر تیس جون 2013ء کا ہے۔ اس منظر میں فلم ’محمد‘ کا ایک منظر فلمایا جا رہا ہے۔ بہت سے مسلمان حلقوں میں پیغمبر کا چہرہ دکھانے کی ممانعت ہے، اس لیے اس فلم میں بھی کہیں بھی پیغمبر کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ اس کی بجائے یہ فلم دیگر کرداروں کی زبانی پوری کہانی سناتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Foghani
فلم ’محمد‘ ایرانی پراپیگنڈا؟
تہران میں اُتاری گئی اس تصویر میں موٹر سائیکل سوار فلم ’محمد‘ کے ایک بڑے پوسٹر کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ جب کینیڈا کے شہر مونٹریال کے ایک سینما گھر میں اس فلم کی نمائش کی گئی تو سینما کے باہر کوئی پچاس مظاہرین نے اس فلم کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ ان مظاہرین نے فلم کے ہدایتکار مجید مجیدی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس فلم سے ایرانی پراپیگنڈا کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Mehr
ایران میں کامیاب نمائش
اس فلم کی تشہیر کے لیے ایران بھر میں بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کیے گئے جبکہ ابتدائی تمام شو ہاؤس فُل رہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ فلم اُنہیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ اپنے کنبے کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینما پہنچنے والے ایک ایرانی ابوفضل فتحی کے بقول انہیں یہ فلم بہت زیادہ پسند آئی:’’جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے میرے خیال میں ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے یہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/B. Mehri
جذبات مجروح کرنے کی نیت نہیں تھی
اس فلم کی موسیقی دینے پر معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان آج کل تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس تنقید پر اپنے رد عمل میں اُنہوں نے اپنے فیس بک پیچ پر ایک خط شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا فیصلہ اچھی نیت کے ساتھ کیا تھا اور وہ کسی کے جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس فلم کا حصہ بننے پر اس مسلمان بھارتی سپر اسٹار کے خلاف ایک فتویٰ جاری کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP
فلم پر تنقید بھی
شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کی ذات، ان کی شبیہ اور اسلامی تاریخ کی دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عکاسی کے حوالے سے قدرے اعتدال پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اس فلم پر تنقید کرتے ہوئے سعودی مفتیٴ اعظم عبدالعزیز الشیخ کا کہنا تھا کہ اس میں اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کیا گیا ہے۔