1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پینتیس کروڑ کے عوض پی سی بی کو کیا ملا ؟

طارق سعید، لاہور26 مئی 2014

پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں ختم ہوئے ڈومیسٹک کرکٹ سیزن میں قائداعظم ٹرافی اور پریزیڈنٹ ٹرافی سمیت نو مخلتف ٹورنامنٹس کاانعقاد کیا، جس میں تیرہ سو بتیس کرکٹرز نے شرکت کی۔ اس کے لیے پینتیس کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔

تصویر: DW/T. Saeed

مگر سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد وسیم کہتے ہیں کہ اتنی خطیر رقم خرچ کرکے بھی پاکستان کرکٹ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا۔ سولہ برس تک ملک میں فرسٹ کلاس کرکٹ کی خاک چھاننے والے محمد وسیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ میں پچ سے لےکر غیرمعیاری گیند تک مسائل کا ہر طرف انبار ہے، ’’ہمیں معیار پر مقدار کو ترجیح دینے کی روش سے چھٹکارہ پانا ہوگا۔‘‘

رواں برس دس کروڑ کی لاگت سے منعقد ہونیوالے ملک کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ قائداعظم ٹرافی میں پہلی بار کامیابی نے راولپنڈی کے قدم چومے مگر بانی پاکستان کے نام پر ہونیوالا یہ پریمئیر ٹورنامنٹ مسلسل دوسرے برس بھی خود کو فارمیٹ کی تبدیلی سے نہ بچا سکا۔ صرف ایک فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ کھیلنے کی پابندی کے سبب امسال صف اوّل کے تمام پاکستانی کرکٹرز تجارتی اداروں کی ٹیموں کے لیے کرائے گئے ٹورنامنٹ پریزیڈنٹ ٹرافی تک محدود ہو کررہ گئے تھے جبکہ قائداعظم ٹرافی کو چودہ علاقائی ٹیموں کے تین سو دو غیر معروف کرکٹرز کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا، جن میں سے کوئی ایک بھی خود کو بین لاقوامی کرکٹ کے اہل ثابت نہ کر سکا۔

مصباح الحق کی قیادت میں کمرشل ادارے سوئی گیس کی ٹیم مسلسل دوسرے برس پاکستان کی ڈومیسٹک چمپیئن بنی ہےتصویر: DW/T. Saeed

گزشتہ چالیس برس میں یہ گیارواں موقع تھا، جب قائداعظم ٹرافی کے فارمیٹ میں ردو بدل کیا گیا، جسے مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے بھی کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ آفریدی کے بقول،’’کوئی بھی سسٹم ہو، اسے کم ازکم دو سال تو چلنا چاہیے مگر یہاں چھ ماہ میں ہی سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ آئے روز ڈومیسٹک ڈھانچے کی تبدیلیاں ہی مسئلے کی جڑ ہیں۔‘‘

پاکستانی ڈومیسٹک کرکٹ کی بدحالی کا سبب پی سی بی کا دو کشتیوں پر سوار ہونا بھی ہے۔ پاکستان میں متوفّی عبدالحفیظ کاردار نے ستر کی دہائی میں تجارتی اداروں کی کرکٹ ٹیموں کی داغ بیل ڈالی تھی مگر بدلے ہوئے زمانے اور خود ان اداروں کی پہلے جیسی دلچسپی نہ ہونے کے سبب یہ نظام آج علاقائی کرکٹ کے متوازی آکر فرسودہ ہوچکا ہے۔

رواں سیزن میں پی سی بی نے ایک ہی وقت میں چھ ٹورنامنٹس کا انعقاد کرکے بھی کھلاڑیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ کمرشل ادارے نیشنل بینک کی ٹیم میں کھیلنے والے پاکستانی اوپنر ناصر جمشید کا اس بارے میں کہنا تھا، ’’بیک وقت ایک روزہ اور چار روزہ ٹورنامنٹ کھیلنے سے کھلاڑیوں کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکلات ہوئیں۔ ایک وقت میں ایک ہی ٹورنامنٹ ہونا چاہیے۔‘‘

اس سیزن میں پچیس فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں کے پانچ سو سینتیس کرکٹرز میں ساٹھ فیصد کی عمر تیس سال سے زائد تھی۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل ان کھلاڑیوں سے وابستہ نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے کی وجہ علاقائی ٹیموں کی تشکیل میں ہونیوالی دھاندلی بھی ہے۔ شہروں کی ٹیم سلیکشن میں کھلاڑی کے کلب ووٹ کا عمل دخل اس کی اہلیت سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں فیصل آباد ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسو سی ایشن کے سیکریٹری طارق فرید نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ علاقائی سلیکشن ووٹ اور پرچی پر ہوتی ہے، اس لیے پی سی بی کو ایماندار اور ڈٹ جانے والے کرکٹرز کو سلیکٹر مقرر کرنا ہوگا۔

طارق فرید کہتے ہیں کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے لیے مختص کیے جانے والے خطیر بجٹ کے باوجود آج بھی علاقائی ٹیموں کے کھلاڑی کسمپرسی کا شکار ہیں۔

شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کرکٹرز کی وجہ سے کرکٹ ہے، اس لیے کرکٹرز کو سہولتیں دینا پڑیں گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی سی بی حکام کی من مانیوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کرکٹ ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے حالیہ ڈومیسٹک کیلینڈر کا سب سے مقبول ٹورنامنٹ سپر ایٹ سرے سے ہی ختم کروا دیا کیونکہ ان کی اپنی ٹیم اس میں کوالیفائی نہ کرسکی تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی نے بھی اعتراف کیا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کا پاکستانی نظام عصر حاضر کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ مسٹر سیٹھی نے کرکٹ سے وابستہ کمرشل اداروں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشنز میں تیار ہونے والے بہترین کھلاڑی تو اپنی ٹیموں میں شامل کر لیتے ہیں مگر گراس روٹ پر کھیل کے فروغ کے لیے انہوں نے کچھ نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سیٹھی نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا، ’’ہمیں دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں اصلاحات لاتے ہوئے علاقائی کرکٹ کو فروغ دینا ہوگا۔‘‘

اس میں کوئی کلام نہیں کہ مسٹر سیٹھی نے سانپ کی دم پر پاؤں ضرور رکھ دیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے اگلے وار سے پہلے ان کی اپنی لاٹھی بچ پائے گی؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں