پینٹاگون نے یہ فنڈنگ وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے دھماکا خیز مواد کا متبادل تیار کرنے سے لے کر وہیل مچھلیوں کا کھوج لگانے کا نظام تیار کرنے تک کے لیے فراہم کی۔
اشتہار
امریکی محکمہ دفاع سال 2008ء کے بعد سے اب تک جرمن یونیورسٹیوں اور اداروں کو 21.7 ملین ڈالرز یا 19 ملین یورو کی فنڈنگ کر چکا ہے جس کا مقصد ریسرچ پراجیکٹس میں مدد کرنا تھا۔ یہ بات جرمن میگزین ڈیر اشپیگل کی طرف سے فنڈنگ سے متعلق اعداد وشمار کے تجزیے کے دوران معلوم ہوئی۔
اس ہفتہ وار میگزین کے مطابق اس دوران پینٹاگون کی جانب سے 260 گرانٹس جاری کی گئیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مختلف موضوعات سے متعلق تحقیق کے لیے تھیں۔
سب سے زیادہ گرانٹ میونخ کی 'لُڈوِگ ماکسی میلیئنس یونیورسٹیٹ‘ یا LMU کو فراہم کی جس کا حجم 3.7 ملین ڈالرز بنتا ہے۔ یہ گرانٹ 23 مختلف پراجیکٹس کے لیے فراہم کی گئی۔ ان میں سے ایک تحقیق بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے دھماکا خیز مواد RDX کا متبال تیار کرنے کے لیے بھی تھی جس کے لیے 1.72 ملین ڈالرز فراہم کیے گئے۔
اس کے علاوہ جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی یونیورسٹیوں کو بھی گرانٹس فراہم کی گئیں حالانکہ اس ریاست کے قانون کے مطابق یونیورسٹیوں کو ''پائیدار، پر امن اور جمہوری دنیا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘ اور ''پر امن اہداف سے جڑے رہنا چاہیے‘‘۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہے کہ امریکی فوج کی طرف سے ملنے والی فنڈنگ کو مسترد کر دیا جانا چاہیے۔ تاہم اس صوبے کی یونیورسٹیوں کا موقف ہے کہ وہ ہتھیاروں وغیرہ کے لیے تحقیق میں ملوث نہیں ہیں۔ حالانکہ اس فنڈنگ سے ہونے والی تحقیق کے تجارتی اور فوجی دونوں استعمال ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر آخن شہر میں واقع RWTH یونیورسٹی کو کیو بِٹس پر تحقیق کے لیے 530,000 ڈالرز کی گرانٹ فراہم کی گئی۔ کیو بِٹس کوانٹم کمپیوٹرز کے لیے انتہائی اہم جزو ہیں۔
اس کے علاوہ اسی یونیورسٹی کو 2012ء میں 50 ہزار ڈالرز کی گرانٹ اس پراجیکٹ کے لیے فراہم کی گئی جس کا مقصد فوجی اور تجارتی مقاصد کے لیے ایسا کپڑا تیار کرنا تھا جو کیڑے مکوڑوں کو خود سے دور رکھ سکے۔
دنیا کو تبدیل کرنے والی پانچ جرمن ایجادات
’تھرماس‘، ’ٹوتھ پیسٹ‘ ’پاور ڈرِل‘ اور ’وال پلگ‘ یہ تمام اہم ایجادات جرمنی میں ہوئیں۔
تصویر: DW
وال پلگ
بالخصوص تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والے وال پلگ بہت پہلے ہی ایجاد ہو چکے تھے لیکن یہ مؤثر نہیں تھے۔ تاہم سن 1958 میں جرمن موجد آرتھر فشر نے ان پلگوں کی ساخت بدل دی اور ان میں ’دانت‘ لگا دیے۔ یوں جب انہیں پیچ کس سے کسا گیا تو یہ مضبوط شکل اختیار کر گئے۔ یہ طریقہ کار اب ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو درست حالت میں لانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
تھرماس فلاسک
انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی میں گلاس کے برتن بنانے میں مہارت رکھنے والے رائنہولڈ بیرگر نے ایسے برتن بنانے شروع کر دیے تھے، جن میں لیکوڈ گیسوں کو اسٹور کیا جاتا تھا تاکہ انہیں ٹرانسپورٹ کیا جا سکے۔ اسی سائنسی اصول کے تحت انہوں نے ایک نیا فلاسک ایجاد کیا، جو آج کل لوگوں کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ بیرگر نے سن 1903 میں اس ایجاد کے حقوق اپنے نام کرا لیے تھے۔
تصویر: Imago/Westend61
شپیگیٹی آئس کریم
داریو فونٹینلا نے جرمن شہر من ہائم میں پہلی مرتبہ شپیگیٹی آئس بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ اس کے لیے انہوں نے شیٹزل میکر استعمال کیا، جس سے خاص قسم کے نوڈلز بنائے جاتے ہیں۔ سن 1969 میں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ تجربہ ونیلا آئس کریم کے ساتھ کیا۔ اسٹرابری کے رس اور پسے ہوئے باداموں کی آمیزیشن سے بنی یہ شپیگیٹی آئس کریم اب بھی جرمنی بھر میں انتہائی مقبول ہے۔
تصویر: Fotolia/unpict
پاور ڈرِل
جرمنی کی ’فین کمپنی‘ میں کام کرنے والے دو ملازمین ہاتھوں کی مدد سے ڈرل کرتے تھے لیکن انہوں نے اس کام کو آسان بنانے کی خاطر ’ڈرل چک‘ کے ساتھ ایک چھوٹی سی موٹر لگا دی۔ یوں انہیں سوراخ کرنے کی خاطر اضافی قوت لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ ایمل فین نے اس ایجاد کی اہمیت کو بھانپ لیا اور اسی اصول کے تحت پہلی ڈرل مشین بنا ڈالی۔ یہ ایجاد اب گھر گھر موجود ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ٹوتھ پیسٹ
سن انیس سو سات میں ڈریسڈن کے فارمسٹ اوٹومار فان مائن بُرگ نے تجرباتی طور پر قدرتی اجزا سے ایک پیسٹ تیار کی، جو دراصل دانتوں کے درد میں مبتلا افراد کے لیے ایک دوا تھی۔ تاہم جلد ہی یہ معمولی تبدیلی کے ساتھ عام استعمال کے دستیاب کر دی گئی۔ اگرچہ اب مارکیٹ میں دانت صاف کرنے والی بہت سی مصنوعات عام ہو چکی ہیں لیکن فان مائن برگ کی Chlorodont نامی ٹوتھ پیسٹ کو ان سبھی مصنوعات کی ’ماں‘ قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Zentralbild/H. Wiedl
5 تصاویر1 | 5
یونیورسٹیز کے علاوہ دیگر تحقیقی اداروں کو بھی پینٹاگون کی طرف سے فنڈنگ فراہم کی گئی جن میں ماکس پلانک سوسائٹی، جرمن ایرو اسپیس سنٹر اور الفریڈ واگنر انسٹیٹیوٹ AWI بھی شامل ہیں۔
اے ڈبلیو آئی کو 2013ء سے 2017ء کے دوران 973,000 ڈالرز کی فنڈنگ ایک ایسے انفرا ریڈ پر مشتمل آٹومیٹڈ سسٹم کی تیاری کے لیے فراہم کی گئی جس کا مقصد سمندر میں وہیل کا کھوج لگانا تھا۔
ڈیر اشپیگل کے مطابق یہ نظام نیوی آپریشنز کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ اس میگزین نے اسے دوہرے استعمال کی تحقیق کی ایک واضح مثال قرار دیا ہے۔
روزمرہ استعمال کی 10 چیزیں جو جرمنی میں ایجاد ہوئیں
جرمنی کو لاتعداد اہم ایجادات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے جن میں موٹر گاڑیوں سے لے کر اسپرین اور نیوکلیئر فشن جیسی ایجادات شامل ہی۔ لیکن شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ روزمرہ استعمال کی یہ 10 چیزیں بھی جرمنی میں ایجاد ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
ایم پی تھری
آڈیو فائلز کو کوالٹی پر سمجھوتہ کیے بغیر کم جگہ پر اسٹور کرنے کے لیے ایم پی تھری یا MPEG-2 آڈیو لیئر تھری کوڈنگ کا طریقہ کارل ہائنز برانڈن برگ نے 1980ء میں تیار کیا تھا۔ اس نے آڈیو کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
کاغذوں میں سوراخ کرنے والا ’ہول پنچ‘
دفتروں میں ضروری کاغذات کو فائلوں میں لگانے سے قبل اس میں دو سوراخ کرنے والا ہول پنچ انیسویں صدی میں جرمن ماہر ماتھیاس تھیل نے ایجاد کیا تھا جبکہ اسے فریڈرک زونیکن نے اسے 14 نومبر پیٹنٹ کرایا۔
تصویر: Colourbox
ڈرل میشن
سخت اشیاء میں سوراخ کرنے کے لیے بجلی سے چلنے والی ڈرل ایجاد تو 1889ء میں آسٹریلیا میں ہوئی تھی تاہم جرمنی کے شہر لُڈوِگزبرگ کے وِلہیلم ایمِل فائن نے 1895ء میں اسے دستی ڈرل میں تبدیل کر دیا۔ یہ مشین گھر اور باہر مرمت کے کاموں کے لیے ایک لازمی جزو بن گئی ہے۔
تصویر: DW
فانٹا
دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے جرمنی سے بڑی مقدار میں برآمد ہونے والے مشروب کوکا کولا کی بیرون ملک برآمد پر پابندی عائد کردی۔ تاہم کوکا کولا جرمنی کے سربراہ ماکس کِیتھ نے مقامی اجزاء سے ایک نئے مشروب کی تیاری کا فیصلہ کیا اور یوں 1941ء میں مشہور زمانہ مشروب فانٹا وجود میں آیا۔
تصویر: imago/Steinach
کافی فِلٹر
1908ء میں ڈریسڈن کی ایک خاتون خانہ میلیٹا بینٹز Melitta Bentz نے کافی چھاننے کے لیے کافی فلٹر تیار کیا۔ انہوں نے اس ایجاد کو پیٹنٹ کرا لیا اور آج ان کے خاندانی کاروبار ’میلیٹا گروپ کے جی‘ میں ملازمین کی تعداد 3300 ہے۔
تصویر: imago/Florian Schuh
چپکنے والی ٹیپ
فارماسسٹ اوسکر ٹروپلووِٹز نے چپکنے والی ٹیپ ایجاد کی جو چھوٹے موٹے زخموں پر لگائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے 1901ء میں لیوکوپلاسٹ نامی چپکنے والا پلاسٹر بھی تیار کیا جو چوٹ وغیرہ کی صورت میں انتہائی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اکارڈین
موسیقی کا آلہ اکارڈین 1822ء میں برلن میں کرسٹیان فریڈرش لُڈوِگ بُش مان نے ڈیزائن اور تیار کیا۔ تھورِنگیا میں پیدا ہونے والے اس ماہر نے اطلاعات کے مطابق اکارڈین سے قبل ہارمونیکا بھی تیار کیا تھا۔
تصویر: Axel Lauer - Fotolia.com
کرسمس ٹری
فِن لینڈ سانتا کلاز متعارف کرانے کا دعویدار ہو سکتا ہے مگر کرسمس ٹری کا تعلق جرمنی سے ہے۔ جرمنی میں ٹانن باؤم کہلانے والی اس روایت کا آغاز کرسمس کی عام سجاوٹ سے ہوا تاہم انیسویں صدی کے آخر تک یہ دنیا بھر میں معروف ہو گئی۔ روایتی طور پر کرسمس ٹری کو پھلوں، خشک میووں اور موم بتیوں سے سجایا جاتا تھا مگر اب تو رنگ برنگی روشنیاں اور تحائف کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Thomas Winkler
کیلوں والے فٹبال کے جوتے
فٹبال کھیلنے کے لیے خصوصی جوتوں کا پروٹوٹائپ تو برطانیہ میں تیار کیا گیا تھا تاہم اڈیڈاس کے بانی ایڈی ڈاسلر نے 1954ء میں فٹبال کے یہ جدید جوتے ایجاد کیے جن کے نیچے بہتر گرِپ یا پکڑ کے لیے نوکیلے ابھار موجود ہوتے ہیں۔ یہ وہی سال ہے جب جرمنی نے فٹبال کا ورلڈ کپ بھی جیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ٹیکسی میٹر
ٹیکسی میٹر برلن کے رہائشی فریڈرِش وِلہیلم گستاف بروہن نے تیار کیا۔ 1891ء میں یہ میٹر دراصل موٹرکار کے موجد گوٹلیب ڈائملر کے لیے تیار کیا گیا تھا مگر اس وقت سے اب تک ٹیکسی میں سفر کرنے والے کا دوران خون بڑھانے کا مؤجب بنا ہوا ہے۔