’پینٹ کی زِپ کھولنا جنسی ہراسانی نہیں‘: بھارتی عدالت
جاوید اختر، نئی دہلی
28 جنوری 2021
ممبئی ہائی کورٹ نے کہا کہ کسی نابالغ لڑکی کا ہاتھ پکڑنا یا اس کے سامنے پینٹ کی زِپ کھولنا بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرنے کے خصوصی قانون کے تحت جنسی ہراسانی نہیں ہے۔ البتہ یہ دیگر قوانین کے تحت جرم ہیں۔
اشتہار
ممبئی ہائی کورٹ نے 'اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ‘ کیس میں متنازعہ فیصلے کے بعد جمعرات 28 جنوری کو ایک اور متنازعہ فیصلہ سنایا۔عدالت کے مطابق کسی نابالغ لڑکی کا ہاتھ پکڑنا یا اس کے سامنے پینٹ کی زِپ کھولنا بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ کے قانون (پوکسو) کے تحت جنسی ہراسانی کا کیس نہیں بنتا ہے البتہ یہ تعزیرات ہند کی دیگر دفعات کے تحت جرم ہے۔
پوکسو کے تحت قصور وار پائے جانے پر مجرم کو کم از کم تین سے پانچ برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے جب کہ دیگر قوانین کے تحت اسی جرم کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک برس قید کی سزا ہوتی ہے۔اس لیے ملزم پوکسو سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
فیصلے کی نکتہ چینی
بمبئی ہائی کورٹ کی جج جسٹس پشپا گنیڑی والا نے ایک پچاس سالہ شخص کی جانب سے ایک پانچ سالہ بچی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے میں یہ فیصلہ سنایا۔ نچلی عدالت نے پوکسو قانون کے تحت ملزم کو پانچ سال کی قید بامشقت اور پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی لیکن ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو بدلتے ہوئے ملزم کو بری کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی پانچ ماہ کی سزا کاٹ چکا ہے جو اس جرم کے لیے کافی ہے۔
سپریم کورٹ کی وکیل کرونا نندی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے بچیو ں کے خلاف ہونے والے جرائم میں ملزموں کو بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ”وہ جج جو اس طرح کے فیصلے دیتے ہیں جو طے شدہ قوانین کے خلاف ہوں، انہیں مستقل طور پر معطل کر دینا چاہیے۔"
کہاں ہیں عورتیں برابر؟
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2016 میں عورتوں کو برابری کا مقام دینے کے معاملے میں 147 ممالک کی کیا رینکنگ رہی، دیکھتے ہیں اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/F.Belaid
ایک سو چوالیس یعنی آخری نمبر : یمن
تصویر: Getty Images/F.Belaid
نمبر ایک سو تینتالیس: پاکستان
تصویر: picture alliance/Pacific Press Agency/R. S. Hussain
نمبر ایک سو بیالیس: شام
تصویر: picture alliance/Pacific Press/Donna Bozzi
نمبر ایک سو اکتالیس: سعودی عرب
تصویر: AP
نمبر ایک سو انتالیس: ایران
تصویر: Getty Images/M. Saeedi
نمبر ایک سو دس: نیپال
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Tuladhar
نمبر ایک سو چھ: ملائیشیا
تصویر: Getty Images/S. Rahman
نمبر سو: سری لنکا
تصویر: AP
نمبر ننانوے: چین
تصویر: picture-alliance/dpa/Liu Jiang
نمبر اٹھاسی: انڈونیشیا
تصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin
نمبر ستاسی: بھارت
تصویر: DW/J. Sehgal
نمبر بہتر: بنگلہ دیش
تصویر: Getty Images/S. Platt
نمبر پینتالیس: امریکا
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Zapata
نمبر تیرہ: جرمنی
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
نمبر دس: نکارا گوا
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر نو: نیوزی لینڈ
تصویر: picture-alliance/ dpa
نمبر آٹھ: سلووینیہ
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر سات: فلپائن
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Chang
نمبر چھ : آئرلینڈ
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر پانچ : روانڈا
تصویر: picture-alliance/dpa/Blinkcatcher
نمبر چار: سویڈن
تصویر: picture-alliance/Chad Ehlers
نمبر تین: ناروے
تصویر: Reuters/S. Plunkett
نمبر دو: فن لینڈ
تصویر: Imago
نمبر ایک: آئس لینڈ
تصویر: AP
24 تصاویر1 | 24
معاملہ کیا تھا؟
لڑکی کی ماں نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ اس نے دیکھا کہ ملزم کی پینٹ کی زِپ کھلی ہوئی تھی اور اس نے ان کی بیٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔اپنی شکایت میں انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کی بیٹی نے بتایا تھا کہ ملزم نے اپنا عضو تناسل پینٹ سے نکال رکھا تھا اور اسے بستر پر اپنے ساتھ سونے کے لیے کہہ رہا تھا۔
جسٹس پشپا گنیڑی والا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کیس تعزیرات ہند کی دفعہ 354 اے کے تحت آتا ہے لہذا ملزم کو پوکسو قانون کے تحت دی گئی سزا منسوخ کی جاتی ہے اور اسے بری کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنے جرم کے لیے پہلے ہی سزا کاٹ چکا ہے۔انہوں نے اس کیس میں 'جسمانی رابطہ‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے 'براہ راست جسمانی تعلق (پینیٹریشن) کے بغیر اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ۔‘
اشتہار
'اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ‘
خیال رہے کہ اس سے قبل 19جنوری کو ایک اور کیس میں بھی جسٹس پشپا گنیڑی والا نے کہا تھا کہ 'اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ‘ کے بغیر کسی بچی کے پستانو ں کو ٹٹولنا بھارتی تعزیرات کے تحت چھیڑ چھاڑ کا کیس ہو گا لیکن جنسی جرائم سے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے قانون(پوکسو) کے تحت یہ 'جنسی ہراسانی‘ کا کیس نہیں۔ انہوں نے اسی بنیاد پر ملزم کو بری کر دیا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تاہم بدھ27 جنوری کو ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکتے ہوئے کیس کی پوری تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ایک غلط مثال قائم ہو گی۔
دراصل ممبئی ہائی کورٹ نے 19 جنوری کو ایک نابالغ بچی کے ساتھ جنسی ہراسانی کے کیس میں ملزم کو صرف اس بنیاد پر بری کر دیا تھا کہ متاثرہ بچی کے ساتھ براہ راست جسمانی رابطہ (Skin to Skin Contact) نہیں ہوا تھا اور ملزم نے بچی کی پستانوں کو براہ راست نہیں چھوا تھا۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
جسٹس پشپا گنیڑی والا نے 39 سالہ ملزم ستیش بندھورگڑے کو بری کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ استغاثہ نے اس بات کے واضح ثبوت فراہم نہیں کیے کہ آیا ملزم نے بارہ سالہ بچی کے جسم پر سے تمام کپڑے ہٹائے یا نہیں۔ اس بات کے شواہد بھی نہیں ملے کہ ملزم نے براہ راست جسمانی چھیڑ چھاڑ یا پینیٹریشن کی ہو۔ لہٰذا یہ بچوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے قانون (پوکسو) کے تحت نہیں آتا۔ اس لیے یہ جنسی ہراسانی نہیں البتہ یہ کسی خاتون کے وقار کی توہین اور تضحیک کا کیس ہے۔
سپریم کورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن ورندا گروور نے ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں کہ کپڑوں کے اوپر سے کسی خاتون کے جسم کو دبوچنا جنسی زیادتی کا عمل نہیں ہے۔ ورندا گروور کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس میں جج کے فیصلے سے اس لیے بھی متفق نہیں کیونکہ کسی لڑکی کے جسم کو کپڑوں کے اوپر سے دبوچنے سے جو ذہنی اذیت پہنچتی ہے اسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
بھارت: خواتین کے خلاف جرائم
بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے مقابلے 2019 میں 7 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس مدت میں فی ایک لاکھ پر جرائم کی شرح 58.8 فیصد سے بڑھ کر 62.4 فیصد ہوگئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury
روزانہ 88 ریپ
بھارت میں 2019 میں جنسی زیادتی کے 32033 کیسز درج کیے گئے یعنی یومیہ اوسطاً 88 کیسز۔ راجستھان میں سب سے زیادہ 5997 کیسز، اترپردیش میں 3065 اور مدھیا پردیش میں 2485 کیسز درج ہوئے۔ تاہم بیشتر واقعات میں پولیس پر کیس درج نہیں کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
تصویر: imago images/Pacific Press Agency
دلتوں کا اوسط گیارہ فیصد
بھارت کے حکومتی ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین میں گیارہ فیصد انتہائی پسماندہ طبقات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی تھیں۔
تصویر: Getty Images
اپنے ہی دشمن
خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 30.9 فیصد معاملات میں ملزم قریبی رشتے دار تھے۔ سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/
کینڈل لائٹ مظاہرے
جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ اگر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس واقعہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے ہیں لیکن پھر اگلے واقعہ تک سب کچھ ’شانت‘ ہوجاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Masrat Zahra
نربھیا کیس
دسمبر 2012 کے دہلی اجتماعی جنسی زیادتی کیس کے بعد پورے بھارت میں مظاہرے ہوئے۔ نربھیا کیس کے نام سے مشہور اس واقعہ کے بعد حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بھی بنائے تاہم مجرموں پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
بیٹی بچاو
وزیر اعظم نریندرمودی نے 2015 ’بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو‘ اسکیم شروع کی جس کا مقصد صنفی تناسب کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے بعد ان کے مخالفین طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ’’مودی جی نے تو پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ’بیٹی بچاو‘۔ اب یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیٹی کو خود بچائے۔“
تصویر: Reuters/Sivaram V
قانونی جوڑ توڑ
جنسی زیادتی کے ملزمین کو سزائیں دینے کی شرح میں 2007 کے بعد سے زبردست گراوٹ آئی ہے۔ 2006 میں سزاوں کی شرح 27 فیصد تھی لیکن 2016 میں یہ گھٹ کر 18.9 فیصد رہ گئی۔ ملزمین قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے کر آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔
تصویر: Reuters
30 فیصد ممبران پارلیمان ملزم
جنسی زیادتی کے ملزم سیاسی رہنماوں کو شا ذ ونادر ہی سزائیں مل پاتی ہیں۔ بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا کے تقریباً 30 فیصد موجودہ اراکین کے خلاف خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اغوا جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
وحشیانہ جرم
جنسی درندے کسی بھی عمر کی خاتون کو اپنی درندگی کا شکار بنالیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والوں میں چند ماہ کی بچی سے لے کر 80 برس کی بزرگ خواتین تک شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/F. Khan
ہر سطح پر اصلاح کی ضرورت
ماہرین سماجیات کا کہتے ہیں کہ صرف قانون سازی کے ذریعہ جنسی زیادتی کے جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر بھی بیداری اور نگرانی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔
تحریر: جاوید اختر، نئی دہلی