پیٹرول، بجلی کی قیمتیں: نئی حکومت کا سبسڈی کے خاتمے پر غور
15 اپریل 2022
وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سرکاری اعانتیں ختم کرنے پر غور کر رہی ہے، جس کا مقصد پاکستانی معیشت کو سہارا دیتے ہوئے توانائی کے نرخوں کی عالمی سطح پر اضافے سے ہم آہنگی ہے۔
اشتہار
پاکستان میں تیل اور گیس کی ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اسے پیٹرول کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دینا چاہیے۔ اوگرا کی اس تجویز پر شہباز شریف حکومت میں اس وقت داخلی سطح پر مشاورت جاری ہے۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ پندرہ اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حال ہی میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہو جانے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اس سال فروری میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا مگر یہ اقدام سرکاری خزانے کو کافی مہنگا پڑا تھا۔ اس وجہ سے ملکی خزانے پر 373 بلین روپے یا دو بلین ڈالر سے زائد کے برابر اضافی بوجھ پڑا تھا اور ریاست طویل المدتی بنیادوں پر ایسے مالیاتی فیصلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد تک
پاکستانی وزارت خزانہ کے سیکرٹری حامد یعقوب شیخ، جو ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں پبلک سبسڈی کا فیصلہ ریاست کے لیے مزید مالی خسارے کا سبب بنے گا۔ انہوں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے ریلیف پیکج ایک ایسا اقدام ثابت ہو گا، جس کا پاکستان فی الحال متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
حامد یعقوب شیخ کے مطابق، ''اس ریلیف پیکج کو یا تو منسوخ کرنا پڑے گا، یا پھر اس کی موجودگی میں دیگر ریاستی اخراجات میں اسی تناسب سے کمی کرنا ہو گی، تاکہ پاکستان اپنے لیے اس بنیادی مالیاتی توازن کے حصول کو یقینی بنا سکے، جس کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے ہی وعدہ کیا جا چکا ہے۔‘‘
نئے وزیر اعظم شہباز شریف کے اعلیٰ ترین اقتصادی مشیر مفتاح اسماعیل ہیں، جن کے بارے میں توقع ہے کہ اپنی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے شہباز شریف انہیں ہی نیا ملکی وزیر خزانہ نامزد کریں گے۔ لیکن مفتاح اسماعیل کا بھی کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستانی بجٹ میں خسارے کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم سے مشاورت
وزیر اعظم شہباز شریف نے کل جمعرات چودہ اپریل کے روز ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال اور توانائی کے شعبے میں حکومتی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے کے بارے میں اپنے اقتصادی ماہرین کی ٹیم سے مشاورت کی۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
اس مشاورت کے بعد اسلام آباد میں وفاقی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ''سبسڈیز کے خاتمے کے بارے میں گزشتہ حکومت نے بھی بات چیت کی تھی اور اب نئی حکومت بھی اس امکان پر غور کر رہی ہے۔‘‘
پاکستانی حکام اب نئی حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں کو کم رکھنے کے حوالے سے عام صارفین کو دی جانے والی سبسڈی کو دو سے تین ماہ تک کے عرصے میں بتدریج ختم کرے تاکہ عام شہریوں پر اس فیصلے کے مالیاتی اثرات کی اچانک شدت کم سے کم رہے۔
اشتہار
اوگرا کی تجویز
پاکستان میں تیل اور گیس کی ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کے ذرائع کے مطابق اس اتھارٹی نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مالی اعانتیں ہفتہ سولہ اپریل سے ختم کر دی جائیں۔ ایسا ٹیکسوں اور محصولات کی شرح صفر کر دینے سے بھی کیا جا سکتا ہے اور اور ان ٹیکسوں کے دوبارہ نفاذ کے ساتھ بھی تاکہ ریاست کی مالی آمدنی میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے۔
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
اوگرا کی تجویز کے مطابق ڈیزل کی اس وقت 144 روپے فی لٹر قیمت 35 فیصد سے زائد کے اضافے کے ساتھ 195 روپے کر دی جانا چاہیے۔ لیکن اگر حکومت نے اس قیمت پر بھی ٹیکس اور محصولات دوبارہ وصول کرنا شروع کر دیے، تو یہ فی لٹر قیمت 264 روپے ہو جائے گی، جس کا مطلب ہو گا موجودہ قیمت میں 83 فیصد سے زائد کا اضافہ۔
اسی طرح پیٹرول کی فی لٹر قیمت اس وقت تقریباﹰ 150 روپے ہے، جس میں 14 فیصد اضافہ کر کے اسے 171 روپے کر دینےکی تجویز دی گئی ہے۔ اگر اس پر دوبارہ ٹیکس شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، تو یہ قیمت 57 فیصد اضافے کے ساتھ 235 روپے فی لٹر ہو جائے گی۔
پاکستانی حکومت کے لیے اوگرا کی تجاویز پر عمل درآمد لازمی نہیں اور فوری طور پر حکومت نے یہی بھی واضح نہیں کیا کہ اس کا اس حوالے سے آئندہ فیصلہ کس ممکنہ سمت میں جائے گا۔