1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ، سیاسی فائدہ کیا ہو گا؟

6 مارچ 2022

پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ آٹھویں روز اتوار کی شام لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گیا ہے۔ اس لانگ مارچ کی ٹائمنگ کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

Pakistan | Peoples Party Demonstration gegen die Regierung
تصویر: Tanvir Shahzad

 پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ لانگ مارچ جب اسلام آباد پہنچے گا تو پارلیمنٹ کے اندر عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ سے درجہ حرارت کافی زیادہ ہو گا اور پارلیمنٹ کے باہر لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کر رہی ہو گی۔ اس طرح پارلیمنٹ میں پاکستانی عوام کی طرف سے ایک موثر پیغام جائے گا۔ یہ لانگ مارچ کس طرح تحریک عدم اعتماد کو قوت دے گا؟ اس حوالے سے  کہنا تھا، ''یہ وہ وقت ہو گا، جب ایوان کے اندر اور باہر اس حکومت کے خاتمے کے مطالبات شدت اختیار کر جائیں گے۔‘‘ ان کے بقول، ''نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘۔

لانگ مارچ کا پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ کیا ہو گا؟

اگرچہ سندھ اور جنوبی پنجاب سے گزرتے ہوئے اس لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اس لانگ مارچ کے ذریعے سندھ اور پنجاب میں اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو کامیابی سے متحرک کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس لانگ مارچ کے سیاسی فائدے کے حوالے سے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں کا متحرک ہونا ہمیشہ ان کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے، '' ہم نے حال ہی میں دیکھا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے متحرک مولانا فضل الرحمان کو مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کے پی کے میں فائدہ ہوا ہے۔‘‘

تصویر: Tanvir Shahzad

 لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ پیپلز پارٹی ماضی میں پنجاب کی پارٹی تھی لیکن بدقسمتی سے پھر یہ سندھ کی پارٹی بن گئی، '' اب صرف ایک لانگ مارچ سے آئندہ انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی سیٹیں نہیں جیت سکتی لیکن اسے مسلسل جدوجہد کرنا ہو گی۔ اس لانگ مارچ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک برانڈ کے طور پر نظر آئی ہے۔‘‘

کیا لانگ مارچ اسٹیبلشمنٹ کے رویے پر بھی اثرانداز ہو گا؟

 مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے 'سیاسی حمام میں سارے ہی جانور‘ ادھر ادھر رابطوں میں رہتے ہیں، ''سیاسی جماعتوں کے طاقتور حلقوں سے مخاصمانہ یا دوستانہ تعلقات ماضی میں رہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے طاقتور حلقوں کے ساتھ کسی رابطے کی اطلاع ملے تو مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔کیونکہ ہم نے پہلے ہی یہ دیکھا ہے کہ 2018ء کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں رہی ہیں۔‘‘

لانگ مارچ میں سیاسی گرمجوشی کیسی ہے؟

پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔ لوگوں نے پیپلز پارٹی کے پرچم اٹھا رکھے ہیں۔ اونچی آواز میں پارٹی کے ترانے چل رہے ہیں۔ کچھ ورکروں کی ٹولیاں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ جگہ جگہ لانگ مارچ کے جلوس کے لئے استقبالیہ کیمپ لگے ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی لیڈر افضل چن پیپلز پارٹی میں شامل

لانگ مارچ کے لاہور پہنچنے پر وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ندیم افضل چن نے تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ کر دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کے ہمراہ لاہور میں ندیم افضل چن کے گھر پہنچے، جہاں ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا۔

تصویر: Tanvir Shahzad

اس موقعے پر ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ آج سے 20 یا 22 سال پہلے انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی سے سیاست شروع کی تھی، '' لیکن فیملی اور کچھ دیگر مجبوریوں کی وجہ سے مجھے ایک غلط فیصلہ کرنا پڑا، جس کا میں اعتراف کرتا رہا ہوں۔‘‘ بلاول بھٹو نے اس موقعے پر پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والے تمام سابق کارکنوں اور حامیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی پارٹی میں واپس آ جائیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک صوبائی وزیر نے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے ایک پیغام میں لکھا کہ فواد چودھری سمیت پیپلز پارٹی کے تمام سابقہ ممبران کے لیے 'عام معافی‘ ہے۔

لاہور میں بلاول بھٹو نے کیا کہا؟

مختلف جگہوں پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا، ''ہم چاہتے ہیں کہ فوری طور پر عمران حکومت کا خاتمہ ہو اور منصفانہ طور پر نئے انتخابات کا انعقاد ہو۔‘‘ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگلے چند دنوں میں عدم اعتماد کے موقعے پر پتہ چل جائے گا کہ کون نیوٹرل تھا اور کون نیوٹرل نہیں تھا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد مشکل ٹاسک ہے، '' لیکن ہمیں کوشش اور محنت کرنی ہے کیونکہ ملک کو اس کی ضرورت ہے، اس بحران سے نکلنے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھانا ہو گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کی سو فیصد گارنٹی نہیں دے سکتے لیکن اگر  سو فیصد گارنٹی کا انتظار کرتے رہے تو یہ 'ظلم‘ جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا، '' ہار جیت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن عوام کو نظر آرہا ہے کہ جتنا میرے بس میں ہے میں کوشش کر رہا ہوں۔ تحریک عدم اعتماد میں ناکام بھی ہوئے تو چین سے گھر نہیں بیٹھیں گے، ان کے پیچھے لگے رہیں گے۔‘‘

وزیراعظم عمران خان کا رد عمل

آج جنوبی پنجاب کے علاقے میلسی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اپوزیشن کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' عدم اعتماد کی تحریک جب ناکام ہوئی تو کیا آپ تیار ہیں، جو میں آپ کے ساتھ کروں گا۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں پر کڑی تنقید کی اور ان پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے جنوبی پنجاب میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کو ایک صوبہ بنانے کا اعلان بھی کیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں