پاکستان میں گزشتہ روز ہونے والے جہاز کے حادثے کے حوالے سے حکومتی نمائندے کا کہنا ہے کہ حادثے کے ممکنہ اسباب کی انکوائری کی جائے گی تاہم تفصیلی تحقیقات میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
اشتہار
گزشتہ روز مورخہ سات دسمبر کو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد آج اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے پہنچی۔ طیارے کے حادثے میں سینتالیس جانیں ضائع ہونے کے بعد سے ملک بھر میں سوگ کی فضا طاری ہے۔
حادثے کے بعد پاکستان میں کئی حلقے فضائی سفر میں سلامتی کی صورتِ حال کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن حکومت کے خیال میں پاکستان میں فضائی حادثے دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم رونما ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیرِ ماحولیات مشاہد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ کہنا کہِ ان حادثات کی تعداد پاکستان میں بڑھتی جارہی ہے ، مناسب نہیں اور پی آئی اے کے جہازوں میں تو حادثات ویسے ہی گِنے چُنے ہیں۔ لوگ اُس سی وَن 30 کے حادثے کو بھی پی آئی اے کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جس میں جنرل ضیاالحق کی ہلاکت ہوئی تھی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا، ’’ اس حادثے پرانکوائری بٹھائی جائے گی جس کی ابتدائی رپورٹ چار ماہ میں آجائے گی جب کہ اس حادثے کی تفصیلی تحقیقات میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انکوائری ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا تقاضہ ہے تو اِس سے بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کے انشورنس کی رقم کی ادائیگی کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ لہذٰا انکوائری ضرور ہوگی اور حقائق کو منظرِ عام پر لایا جائے گا۔‘‘
ہلاک شدگان کی لاشوں کی شناخت کے حوالے سے پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈاکڑ وسیم خواجہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’تئیس افراد کی لاشیں پمز لائی گئیں ہیں، جو بری طرح جُھلسی ہوئی ہیں۔ اس لئے اِن کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے تیئس افراد کے نمونے لئے جارہے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج آنے میں سات سے دس دن لگ سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ بقیہ لاشوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احمد کمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’تیئس لاشیں پمز پہنچادی گئی ہیں جہاں ڈی این اے کے نمونے لئے جارہے ہیں۔ چوبیس لاشیں ابھی لائی جارہی ہیں۔ ان لاشوں کو اسپتالوں میں موجود گنجائش کے حوالے سے رکھا جائے گا کیونکہ ہر اسپتال کے سرد خانے کی گنجائش مخصوص ہوتی ہے۔ اس گنجائش کے حوالے سے پمز میں آٹھ لاشیں رکھی جائیں گی، کمبائنڈ ملڑی اسپتال راولپنڈی میں اٹھارہ، پولی کلینک اسلام آباد میں دس، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال راولپنڈی میں پانچ اور کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اسپتال میں دو لاشیں رکھی جائیں گی۔‘‘
انہوں نے کہا این ڈی ایم اے نے لاشوں کو لانےکے لئے متعلقہ اداروں سے مل کر ہیلی کاپٹرز کا انتظام کیا ہے جب کہ ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات بھی این ڈی ایم اے کی طرف سے ہی کیے جارہے ہیں۔ ’’اگر حکومت نے معاوضےکی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو وہ بھی ہمارے ہی ادارے کے ذریعے کی جائے گی۔‘‘
پی آئی اے کے ترجمان عادل گیلانی نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ کچھ افراد کی لاشیں اُن کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا، ’’ ابھی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ابھی تو صرف ڈی این اے کے لئے نمونے لئے گئے ہیں۔ اس میں کچھ دن لگیں گے۔ پی آئی اے نے لواحقین کو اسلام آباد پہنچنے کے لئے فضائی ٹکٹ دیے ہیں۔ ہوٹلوں میں اُ ن کے رہنے کا بندوبست کیا ہے جب کہ اُن کو سفری سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ علاوہ ازیں پی آئی اے انتظامیہ نے تمام ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے فی کس دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو ان کے تجہیزوتکفین کے لئے دیےجائیں گے۔‘‘
عادل گیلانی نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی تردید کی کہ یہ طیارہ فنّی نکتہ ء نظر سے اڑانے کے قابل نہیں تھا۔’’ طیارہ فنّی لحاظ سے بالکل صحیح حالت میں تھا۔ اس کے سفری گھنٹے بھی صرف اٹھارہ سو کے قریب تھے۔ جہاز نے ٹیک آف بھی بالکل صحیح انداز میں کیا تھا۔ اس حادثے کے حوالے سے تحقیقات کی جائے گی ۔ لہذٰا ایسی قیاس آرائیوں سے گریز کیا جانا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کے شہروں لاہور اور پشاور میں حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لئے غائبانہ نمازِ جنازہ اداکی گئی جب کہ کئی شہروں میں ہلاک شدگان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے اس حادثے پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کل اور آج اسی حادثے کو اپنا موضوعِ بحث بنایا اور ہلاک ہونے والے مختلف افراد کے حوالے سے خصوصی رپورٹیں دکھائیں۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے پیغامات کے ذریعے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر سب سے زیادہ کوریج پاکستان کی معروف شخصیت جُنید جمشید کو دی گئی جنہوں نے سن 2002 کے بعد ڈرامائی طور پر موسیقی کی دنیا کو خیر باد کہہ کر مذہب سے لَو لگا لی تھی۔ اس تبدیلی کے بعد انہوں نے نعت گوئی کا آغاز کیا اور اپنی مصروفیات کا ایک بڑاوقت دعوتِ تبلیغ میں صَرف کیا۔
2014ء: حادثے کے شکار بدقسمت طیارے
اتوار ستائیس دسمبر کی صبح ایئرایشیا کا ایک طیارہ اچانک لاپتہ ہو گیا۔ سال 2014ء ہوا بازی کی صنعت خصوصاﹰ ملائیشیا کے لیے کئی بری خبروں کا حامل رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Pleul
کوئی رابطہ نہیں
ایئرایشیا کی ایئربس انڈونیشیا کے جزیرے جاوا کے سورابایا کے ہوائی اڈے سے سنگاپور کے لیے روانہ ہوئی، تاہم پرواز کے چالیس منٹ بعد اس جہاز کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس جہاز پر 162 افراد سوار تھے اور اب اس کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Nuraheni
طوفان اور پائلٹ کی کوشش
لاپتہ ہونے سے قبل اس ایئربس A320-200 کے پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو ایک طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے راستہ تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی تھی، جو اسے نہ مل سکی۔ اب حکام اس جہاز کو انڈونیشیا کے جزیرے بنگکا بیلِٹُنگ کے قریب بحیرہء جاوا میں تلاش کر رہے ہیں۔ اس جہاز کی گم شدگی نے ایم ایچ 370 کی یادیں تازہ کر دیں۔
تصویر: Aditya/AFP/Getty Images
ٹرپل سیون کے دوہرے سانحے
سن 2014ء میں ملائیشیا ایئرلائنز کے دو بوئنگ 777 جہاز تباہ ہوئے۔ ان میں سے ایک اب تک لاپتہ ہے۔ رواں برس مارچ میں کوالالمپور سے بیجنگ جانے والی پرواز ایم ایچ 370 اچانک ریڈار کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی تھی اور اس کے بعد آج تک اس کا ملبہ نہیں مل سکا۔ اس جہاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر جنوبی بحرہند میں گر کر تباہ ہوا۔
تصویر: cc-by-sa/Laurent Errera/L'Union
ہوا بازی کی تاریخ کا عجیب معمہ
پرواز ایم ایچ 370 کے ساتھ ہوا کیا؟ یہ ہوابازی کی تاریخ کا سب سے بڑا معمہ ہے۔ کیا اس جہاز کو کوئی تکنیکی خرابی لاحق ہوئی؟ کیا اسے اغوا کر لیا گیا؟ یا اس کے پائلٹ نے خودکشی کی اور اپنے ساتھ سارے مسافروں کی جان بھی لے لی؟ اس جہاز کی تلاش کے لیے متعدد ممالک اب بھی کوششیں کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images
ملبے کی بجائے دیگر چیزیں
سیٹیلائیٹ تصاویر میں سمندر میں متعدد بار مواد دکھائی دیا، تاہم جن چیزوں کو اس جہاز کا ملبہ سمجھا گیا، ہر بار وہ دیگر چیزیں ہی نکلیں۔ اس تلاش میں سمندری جہازوں اور آب دوزوں نے جہاز کے ڈیٹاریکارڈ سے نکلنے والے سگنلز کو وصول کرنے کی بھی سرتوڑ کوشش کی، مگر نتیجہ ندارد۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یوکرائنی تنازعے کے معصوم متاثرین
رواں برس جولائی میں ملائیشیا ایئرلائنز کا ایک اور بوئنگ طیارہ ایم ایچ 17تباہ ہو گیا۔ اس جہاز کو خانہ جنگی کے شکار ملک یوکرائن کے مشرقی حصے میں میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اس جہاز پر 298 افراد سوار تھے، جو ایمسٹرڈم سے کوالالمپور کے سفر پر تھے۔
تصویر: Reuters
ملبے کے حصول میں مشکلات
ایم ایچ 17 میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے، جب کہ اس کے ملبے کی سلامتی اور تفتیش بھی مشکلات کا شکار رہی۔ مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں نے تفتیش کاروں کو جائے حادثہ پر پہنچنے اور تباہی کے فوری بعد تحقیقات کرنے سے روکے رکھا۔
تصویر: Reuters
بلیک باکس کی تاخیر سے ترسیل
اس حادثے کے پانچ روز بعد روس نواز باغیوں نے جہاز کے فلائٹ ریکارڈر کو ملائیشیا کے حکام کے حوالے کیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایم ایچ 17 پرواز کو ممکنہ طور پر زمین سے فضا میں مار کرنے والے کسی میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ جہاز کی تباہی، روسی، یوکرائنی یا باغی فورسز میں سے کس کی جانب سے غلطی سے چلائے جانے والے میزائل کا نتیجہ ثابت ہوئی۔
تصویر: Reuters
ناکام لینڈنگ
ایم ایچ 17 کے سانحے کے صرف چھ روز بعد ہوا بازی کی صنعت کو ایک اور حادثے کا سامنا کرنا پڑا، جب تائیوان میں ٹرانس ایئرویز کا ایک مسافر بردار طیارہ طوفانی موسم میں لینڈنگ کی کوشش میں تباہ ہو گیا۔ اس واقعے میں 48 افراد ہلاک ہوئے جب کہ دس افراد زندہ بچ پائے۔
تصویر: Reuters
راستے کی تبدیلی کی درخواست اور تباہی
جولائی کی 24 تاریخ کو برکینا فاسو سے الجزائر جانے والا جہاز مالی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس جہاز پر سوار تمام 118 افراد ہلاک ہو گئے۔ تباہی سے قبل پائلٹ نے کنٹرول ٹاور سے طوفان کے پیش نظر راستہ تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
تصویر: cc-by-sa/Dura-Ace/curimedia
ہر جانب پھیلا ملبہ
یہ جہاز انتہائی تیز رفتار سے زمین سے ٹکرایا اور اس کا ملبہ دور دور تک پھیل گیا۔ جہاز کی یہ مکمل تباہی مالی کے شہر گوسی کے قریب ہوئی۔ اے ایچ 5070 کی اس تباہی کی وجہ ممکنہ طور پر جہاز کا طوفان کی زد میں آنا تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Sia Kambou
پرواز کے فوری بعد تباہی
رواں برس اگست کی دس تاریخ کو ایرانی ایئرلائن کا ایک طیارہ تہران سے پرواز کرنے کے چند ہی لمحوں بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ اس پرواز AN-140 پر سوار 39 افراد ہلاک جب کہ دیگر نو زخمی ہو گئے۔ اس جہاز کی تباہی کی وجہ انجن فیل ہو جانا بتائی گئی تھی۔
تصویر: Tasnim
تباہ کن فضائی کرتب
جرمنی میں جون کی 23 تاریخ کو عسکری فضائی مشقوں کے دوران دو جہازوں کا تصادم ہو گیا۔ اس مشق کے دوران یورو فائٹر جہاز ایک چھوٹے شہری جہاز سے جا ٹکرایا۔ حکام کے مطابق اس شہری جہاز کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع تھا، جس کی وجہ سے فائٹرجہاز کو فضا میں اس کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔ تصادم کے بعد یہ شہری جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bernd Wüstneck
مشق کے مقام کے انتہائی قریب
یہ چھوٹا تربیتی شہری جہاز لیئرجیٹ پرواز کرتے ہوئے عسکری مشقوں کے مقام کے انتہائی قریب آن پہنچا۔ جرمن علاقے اولسبرگ میں پیش آنے والے اس حادثے میں اس تربیتی جہاز میں سوار پائلٹ اور معاون پائلٹ ہلاک ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BS f. Flugunfalluntersuchung
شدید نقصان کے باوجود لینڈنگ
اس تصادم کی وجہ سے یوروفائٹر جہاز کو شدید نقصان پہنچا اور جہاز کے ایندھن کا بیرونی ٹینک تباہ ہو گیا، تاہم اس جہاز کا 31 سالہ پائلٹ اس لڑاکا طیارے کو بحفاظت اتارنے میں کامیاب ہو گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BS f. Flugunfalluntersuchung
کریش لینڈنگ
اگست کی 13تاریخ کو برازیل میں ریوڈی جنیرو سے سانتوس کی جانب پرواز کرنے والا پرائیویٹ سیسنا جہاز کریش لینڈنگ کی کوشش کے دوران تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں برازیل کے صدارتی انتخابات میں شامل امیدوار اڈوارڈو کمپوس بھی شامل تھے۔ اس حادثے کی وجہ خراب موسم قرار دی گئی تھی۔