1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پی آئی اے کی نجکاری کے لیے کامیاب بولی 135 بلین روپے

مقبول ملک روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ
23 دسمبر 2025

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے منگل کے روز مجموعی طور پر تین بولیاں لگائی گئیں۔ ان میں سے کامیاب بولی 135 بلین روپے تھی، جو سرمایہ کار کنسورشیم عارف حبیب کارپوریشن کی طرف سے لگائی گئی۔

پی آئی اے  کے ایک مسافر طیارے کی دوران پرواز لی گئی تصویر
پی آئی اے کا شمار ان بڑے پاکستانی ریاستی اداروں میں ہوتا ہے، جو سالہا سال سے اربوں روپے سالانہ کے کاروباری خسارے میں جا رہے ہیںتصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

پاکستان کے بندر گاہی شہر اور اقتصادی مرکز کراچی سے 23 دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق سرکاری انتظام میں کام کرنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجی شعبے کو فروخت کے لیے منگل کے روز بولیاں لگانے کا جو عمل مکمل کیا گیا، اس میں مجموعی طور پر تین ممکنہ خریداروں کی طرف سے باقاعدہ مالی پیشکشیں کی گئیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی وژن کے مطابق سب سے بڑی بولی عارف حبیب کارپوریشن نامی انویسٹمنٹ کنسورشیم کی طرف سے لگائی گئی جو 135 بلین روپے تھی۔

اس کنسورشیم میں کھادیں بنانے والا ادارہ فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی، سٹی اسکولز نامی نجی تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک اور ریئل اسٹیٹ فرم لیک سٹی ہولڈنگز لمیٹڈ شامل ہیں۔

افغانستان میں کابل کے ہوائی اڈے پر اترنے والا پی آئی اے کا ایک مسافر طیارہ، فائل فوٹوتصویر: KARIM SAHIB/AFP/Getty Images

شدید خسارے میں رہنے والے ریاستی اداروں کی نجکاری کی کوششیں

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کی لیے لگائی جانے والی بولیاں پاکستانی حکومت کی ان کوششوں کے لیے ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہیں، جو وہ سالہا سال سے شدید خسارے میں رہنے والے ریاستی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کر کے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کر رہی ہے۔

پاکستان کی قومی ایئر لائن کے حوالے سے ناقدین کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ فضائی کمپنی نہ صرف عملے کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے بے تحاشا مالی دباؤ کا شکار ہے بلکہ اسے اس کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے بدانتظامی کا سامنا بھی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ کہ اس ادارے کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے اور پاکستانی حکومت کے لیے بھی یہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لیے مزید مالی بوجھ کے ساتھ اس ادارے کے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچانے کی کاوشیں کرتی رہے۔

پانچ سال بعد پی آئی اے کی برطانیہ واپسی، اسلام آباد سے مانچسٹر کے لیے پروازیں بحال

پی آئی اے کا ایک مسافر طیارہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی تیاری میںتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/picture alliance

وزیر اعظم شہباز شریف کا موقف

پی آئی اے کی نجکاری کے لیے لگائی جانے والی بولیوں کے بعد، جو کہ قومی ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئیں، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹی وی پر دکھائے جانے والے اور اپنی کابینہ کے ایک اجلاس میں دیے گئے ایک بیان میں کہا، ''یہ عمل بہت شفاف رکھنا اس لیے ناگزیر ہے کہ نجکاری کی یہ کوشش پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی مالی ٹرانزیکشن کی وجہ بنے گی۔‘‘

شہباز شریف نے کہا، ''نیلامی کے لیے بولیاں لگانے کا یہ عمل کامیاب رہا، تو اس کے ساتھ ہی پی آئی اے کی نجکاری کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔‘‘

جن تین اداروں نے پی آئی اے کو خریدنے کے لیے بولیاں لگائی ہیں، وہ تینوں کے تینوں کنسورشیم ہیں۔ ان میں سے ایک کنسورشیم کی قیادت پاکستان کی ایک نجی فضائی کمپمنی ایئر بلیو کر رہی ہے، دوسرے کی لکی سیمنٹ نامی ادارہ اور تیسرے کی عارف حبیب کارپوریشن نامی ایک سرمایہ کاری فرم۔

پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کی نیلامی

پی آئی اے کی نجکاری کوششوں کے دوران آج لگائی جانے والی تینوں بولیاں ہر ادارے نے اس فضائی کمپنی کے 75 فیصد ملکیتی حقوق کی خریداری کے لیے لگائیں۔

پی آئی اے کی نجکاری، فوجی فرٹیلائزر کمپنی اور دو مزید کاروباری گروپس کی دلچسپی

منگل کے روز لگائی جانے والی بولیوں سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کے لیے گزشتہ برس بھی بولیاں لگائی گئی تھیں۔ تاہم یہ عمل تب اس لیے ناکام ہو گیا تھا کہ 2024ء میں اس کے لیے صرف ایک ہی بولی لگائی گئی تھی، جو محض 36 ملین ڈالر کے برابر تھی اور حکومت کی طرف سے طے کردہ 305 ملین ڈالر کی کم از کم ممکنہ قیمت سے انتہائی کم۔

پی آئی اے کو سالہا سال سے مسلسل اتنا زیادہ کاروباری خسارہ ہو رہا ہے کہ ماضی قریب میں اسے پاکستان سٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ بھی کر دیا گیا تھا۔

ادارت: شکور رحیم

دنیا کے سب سے بڑے مسافر جہاز کی آسمانوں میں واپسی

01:15

This browser does not support the video element.

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں