1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پی آئی اے کے پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کی ہدایات نظر انداز کیں‘

4 جون 2020

کراچی طیارہ حادثے میں شدید زخمی ہونے والی ایک بچی دم توڑ گئی۔ دریں اثناء پاکستانی ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے کو بتایا ہے کہ پائلٹ نے ٹریفک کنٹرول کی لینڈنگ کے لیے ہدایات کو نظر انداز کیا تھا۔

Pakistan Flugzeugabsturz in Wohnhäuser in Karatchi
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum


حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کا بلیک باکس فرانس بھیج دیا گیا تھا، جس کے ڈیٹا کو ڈاؤن لوڈ کر لیا گیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ایئربس  A 320 کے حادثے میں 97 مسافر اور جہاز کے عملے کے اراکین ہلاک ہوئے تھے جبکہ صرف دو مسافر بچ سکے تھے۔

22 مئی کو کراچی کے جناح ایئرپورٹ کے نزدیک ایک گنجان آبادی والے علاقے میں اس طیارے کے گرنے سے ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں بھی نقصان ہوا تھا جبکہ کچھ مکانات نذر آتش بھی ہو گئے تھے۔ آگ میں جھلسنے والی املاک  کے علاوہ انسانی جانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

اس آگ میں بری طرح جل جانے والی 12 سالہ ایک بچی ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھی۔ ہسپتال کی ایک ڈاکٹر روبینہ بشیر نے بتایا کہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بچی پیر کے روز فوت ہو گئی جبکہ مزید تین مقامی افراد جو بہت زیادہ زخمی ہوئے تھے، ہنوز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ابتدائی اندازے

ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا جیٹ طیارہ انجن کی ناکامی کے بعد گر کر تباہ ہوا تھا۔ پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 8303  لاہور سے کراچی پہنچنے کی کوشش کے دوران کریش ہوئی تھی۔

جس علاقے میں یہ طیارہ گرا تھا وہاں کے 18 گھروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ان میں سے کچھ گھر تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور متعدد مکینوں کو شدید زخم آئے تھے۔ ان ہی میں سے چار کا مقامی سرکاری ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے تاہم 12 سالہ بچی کو نہ بچایا جا سکا۔

پی آئی اے کا طیارہ ماڈل ٹاؤن کے رہائشی علاقے پر گرا تھا۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

فرانس میں بلیک باکس تفتیش

فرانسیسی ہوائی حادثے کی تفتیشی ایجنسی بی ای اے نے بلیک باکس مواد ڈاؤن کر لیا جس میں صوتی ریکارڈ اور تمام ڈیٹا موجود ہے۔ پاکستانی فضائی حادثے کے تفتیش کاروں اور ایئر بس انجن بنانے والے ماہرین نے تفتیشی کارروائی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔


بی ای اے ایجنسی کا برسوں کا تجربہ ہے اور اس ایجنسی نے تفتیشی کارروائی میں اس لیے بھی حصہ لیا کیونکہ حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کو فرانس میں مقیم طیارہ ساز ایئربس نے بنایا تھا۔


یہ حادثہ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے روک تھام کے سلسلے میں عائد پابندیوں کو عیدالفطر کی چھٹیوں سے پہلے جزوی طور پر اُٹھائے جانے والے اقدامات میں سے ایک یعنی اندرون ملک پروازوں کی بحالی کے نتیجے میں پیش آیا۔

دریں اثناء پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کی ایوی ایشن اتھارٹی تفتیش کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جہاز کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔

ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ جہاز کو پائلٹ نے پہلی  مرتبہ لینڈ کرنے کی کوشش کی تو جہاز کا انجن زمین سے ٹکرایا اور اُسے رگڑ لگی اس کے بعد جہاز غیر مستحکم انداز میں گہرائی کی طرف گرتا محسوس ہوا۔

حادثے میں بچ جانے والا محمد زبیر۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan

پی آئی اے کو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک خط میں کہا کہ کنٹرول ٹاور کی طرف سے پائلٹ کو دو بار تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنی کوششیں بند کر دے تاہم ان ہدایات کی تعمیل نہیں کی گئی۔

اس خط میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ لینڈنگ کے وقت جہاز کی رفتار رن وے تھریش ہولڈ سے زیادہ تھی۔ جہاز رن وے کی سطح سے ایک بار اوپر اٹھا اور فوراً ہی پائلٹ نے لینڈ کرنے کی ایک اور کوشش کی جس کے نتیجے میں طیارہ رہائشی علاقے ماڈل ٹاؤن پر جا گرا۔

پی آئی اے کے کارپوریٹ کمیونیکیشنز کے جنرل مینیجر عبداللہ حفیظ خان نے روئٹرز کو بیان دیتے ہوئے کہا،'' ہاں ہمیں خط موصول ہوا ہے، وہ تفصیلات کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے خط میں کیے گئے دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ 

 

اس حادثے نے کراچی میں کہرام مچا دیا تھا۔تصویر: Reuters/A. Soomro

مذکورہ خط میں یہ بھی درج ہے کہ جس وقت جہاز کراچی سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر مکلی کے علاقے پر سے پرواز کر رہا تھا اُسی وقت کنٹرول ٹاور نے اندازہ لگا لیا تھا کہ جہاز کی اونچائی  لینڈنگ کے لیے بہت زیادہ ہے، اس بارے میں پائلٹ کو دوسری مرتبہ لینڈنگ کی کوشش سے متنبہ کیا گیا تھا تاہم اُس نے کہا کہ وہ لینڈنگ کے لیے تیار ہے۔

 

ہوائی جہاز کا کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا باکس فرانسیسی ہوائی حادثے کی ایجنسی بی ای اے تک پہنچ چکا ہے اور اسے ڈی کوڈ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ حادثے سے متعلق ابتدائی رپورٹ 22 جون کو پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔

ک م / ع ب / ایجنسیاں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں