1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی آئی اے کے پاس کتنے جہاز، وزیر نجکاری لاعلم؟

عثمان چیمہ
6 جنوری 2025

پی آئی اے مرمت کے بعد اپنے بیڑے میں مزید آٹھ طیارے شامل کرنے جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر نجکاری کے عمل سے پہلے ان طیاروں کی مرمت کر لی جاتی تو حکومت سبکی سے بچ سکتی تھی۔

Pakistani airlines I PIA
تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

پاکستان کی قومی ایئر لائنز (پی آئی اے) نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ادارہ مزید آٹھ طیارے اپنے بیڑے میں شامل کرنے جا رہا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب یہ بات ہو رہی کہ پی آئی اے بہت بڑے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ  حکومت اسے بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی ایک کوشش حال ہی میں ناکام بھی ہو چکی ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوا کہ قرضوں میں دبا یہ ادارہ جہاز کیسے خریدے گا؟ اس سلسلے میں جب پی آئی اے سے رابطہ کیا گیا تو یہ آشکار ہوا کہ ادارے کے پاس آٹھ ایسے جہاز موجود ہیں جن کی مرمت ممکن ہے اور ادارہ اب ان کی مرمت کرنے کے بعد انہیں اپنے بیڑے میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبدللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،  ''برطانیہ اور یورپ کے لیے پروازوں کی ممکنہ بحالی اور نیٹ ورک کی توسیع کے ساتھ، پی آئی اے اُن طیاروں کو دوبارہ فعال بیڑے میں شامل کرنے کے عمل میں ہے، جو طویل عرصے سے غیر فعال تھے۔ انتظامیہ کے منصوبے کے مطابق، بوئنگ 777 کے فعال طیاروں کی موجودہ تعداد 5 سے بڑھا کر 8، اے-320 کی تعداد 12، اور اے ٹی آر کی تعداد 2 تک کی جائے گی۔‘‘

عبدللہ حفیظ خان نے مزید کہا کہ طیاروں کی مرمت ادارہ اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے کرے گا اور اس کے لیے حکومت سے مالی مدد شاید نہ ہی مانگی جائے۔

ترجمان پی آئی اے کے بقول انتظامیہ کے عزم نو کی بدولت، پی آئی اے اب وقت کی پابندی اور شیڈول کی معتبریت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اندرون ملک اور تعطیلاتی مقامات پر ان فلائٹ انٹرٹینمنٹ سسٹم کی تنصیب، کیبن اپ گریڈیشن اور بہتر معیار کے کھانے کی فراہمی بھی شامل ہو چکی ہے۔

پاکستان کی قومی ایئر لائنز نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ادارہ مزید آٹھ طیارے اپنے بیڑے میں شامل کرنے جا رہا ہےتصویر: Photoshot/picture alliance

پی آئی اے کی اس صورتحال کی وجہ کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر طیارے پہلے سے موجود تھے تو وزیرِ نجکاری کی ذمہ داری تھی کہ انہیں نجکاری کے عمل میں داخل ہونے سے پہلے فعال کیا جاتا تاکہ حکومت کو نجکاری کے عمل کے دوران شرمندگی اور ہزیمت سے بچایا جا سکتا۔

ماہرین کا یہ کہنا بھی ہے کہ پی آئی اے کو پہلے ایسے سربراہوں نے تباہ کیا ہے، جن کا کمرشل ائیرلائن چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا لیکن حکومت انہیں چئیرمین لگا دیتی ہے اور اب جب بیچنے تک بات آ گئی ہے تو حکومت نے ایک ایسے شخص کو نجکاری کا منسٹر بنا دیا ہے، جو صرف پلاٹ بیچنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی غیر ذمہ دارانہ رویہ اور نا اہلیت  کی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں حکومت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

نجکاری کے سابق وزیر محمد زبیر کہتے ہیں، ''یہ ایک لکھا ہوا قانون ہے کہ جب کابینہ کمیٹی کسی ادارے کی نجکاری کا فیصلہ کرے تو نجکاری کمیشن ایک طرح سے اس ادارے کے مالک کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ جس حد تک ہو سے ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنائے تا کہ خریدنے والے اس میں دلچسپی لیں اور زیادہ بہتر ڈیل ہو سکے اور یہاں تو یہ ہوا کہ نجکاری کا پورا عمل ایک مذاق بنا دیا گیا اور اس کی بڑی وجہ ایک پراپرٹی کے کاروبار کرنے والے کو نجکاری کا وزیر لگانا ہے۔‘‘

محمد زبیر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ ملک میں غیر موزوں لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں دینا اداروں کی تباہی کی بڑی وجہ ہے، ''پی آئی اے کا سربراہ زیادہ تر ائیرفورس کے لوگوں کو لگایا جاتا ہے اور یہ ادارے کو اس مقام تک لانے کی ایک بڑی وجہ ہے، اب جب بیچنا ہی ہے تو وہ کام تو کسی ماہر کے سپرد کیا جائے۔‘‘

ماہرین سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے کا چئیرمین ادارے میں سے ہی ہونا چاہیےتصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

ماہرین سمجھتے ہیں کہ پی آئی اے کا چئیرمین ادارے میں سے ہی ہونا چاہیے۔ بشیر احمد پی آئی اے میں جنرل مینیجر کے عہدے پر رہ چکے ہیں اور ائیر لائنز کے انتظامی امور میں شامل رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ''پی آئی اے اس حوالے سے بہت بدقسمت رہا ہے کہ اسے کبھی کسی ایسے شخص کے زیر انتظام نہیں دیا گیا، جو کمرشل ائیرلائنز چلانے کا تجربہ رکھتا ہو۔ پی آئی اے کے طیارے گراؤنڈ رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ائیر فورس کے لوگ اس ادارے کا انتظام چلاتے رہے ہیں اور چلاتے ہیں اور وہ بہت سی چیزوں کو اہمیت بھی نہیں دیتے۔ ان کے فیصلے کمرشل اصولوں پر پورا نہیں اترتے، جس کی وجہ سے آج پی آئی اے بھاری قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اور اسے کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔‘‘

کیا پی آئی اے پر مزید رقم خرچ کرنا بہتر فیصلہ ہے؟

محمد زبیر کہتے ہیں کہ نئے طیارے بیڑے میں شامل کرنے کا فیصلہ ٹھیک ہے گو کہ مرمت پر جو رقم خرچ کی جائے گی وہ شاید بیچنے کی صورت میں وصول نہ کی جا سکے لیکن ائیرلائن کی کارکردگی بہتر کرنے سے سنجیدہ خریدار دلچسپی لیں گے اور یہ کام پہلے کرنا چاہیے تھا۔

محمد زبیر نے وزیر نجکاری کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا، ''عجیب بات ہے کہ ایک پلاٹ بیچنے والا گروپ کیسے نجکاری کے عمل کا حصہ بنا دیا گیا اور مزید مذاق یہ کہ اس گروپ نے نہ صرف انتہائی کم قیمت لگا کر مذاق اڑایا بلکہ یہ بھی پوچھا کہ کیا وہ قیمت ادا کرنے کی بجائے حکومت کو اپنی سوسائٹی میں پلاٹ دے سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہی نہیں کہ وہ کس کام سے آئے ہیں اور کیا خریدنے جا رہے ہیں۔ صرف نجکاری کے وزیر عوامی ملکیت کے ایک ادارے کے مذاق اڑائے جانے کے ذمہ دار ہیں، جو خود ایک پراپرٹی بیچنے والے کاروباری ہیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کی تنقید کا جواب حاصل کرنے کی خاطر جب وزارت نجکاری سے رابطہ کیا گیا تو اس تناظر میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں