پچیس جولائی کےعام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی نے سیاسی ایوانوں کی طرح ’پاکستان کرکٹ کی محل سرا‘ قذافی اسٹیڈیم کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار طارق سعید نے باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگلے ہفتے ممکنہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حلف اٹھانے کے بعد جن قومی اداروں کی باگ ڈور نئے ہاتھوں کو سونپی جائے گی ان میں پاکستان کرکٹ بورڈ بھی شامل ہے۔
ڈی ڈبلیو کو ذرائع کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نجم سیٹھی کی جگہ نئے چیئرمین پی سی بی کا عہدہ سنبھالنے کے لیے احسان مانی ہاٹ فیورٹ ہیں۔ سابق کرکٹر وسیم اکرم اور لاہور سے دوبارہ منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود بھی چیئرمین بننے کے امیدواروں میں شامل تھے لیکن اب یہ دونوں اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
راولپنڈی میں پیدا ہونےوالے احسان مانی پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور 2003ء سے 2006ء تک بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے کامیاب چیئرمین رہ چکے ہیں۔ کرکٹ کے عالمی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ماضی میں خود عمران خان اپنے کزن ماجد خان کا نام بھی چیئرمین کرکٹ بورڈ کے طور پر پیش کر چکے ہیں لیکن معلوم ہوا ہے کہ خود ماجد کی قذافی اسٹیڈیم واپسی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دریں اثنا پی سی بی میں تبدیلی کا پہلا اشارہ رواں ہفتے اس وقت ملا جب کرکٹ بورڈ سے منسلک چھ کرکٹ ریجنز کے سربراہان نے بنی گالہ جا کرعمران خان سے ملاقات کی اور نجم سیٹھی پرعدم اعتماد کا اظہارکیا۔
عمران خان سے ملنے والے اس وفد میں ایبٹ آباد ریجنل کرکٹ ایسو سی ایشن کے صدر عامر نواب بھی شامل تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ’’ہم نے کرکٹ میں ہونے والی سنگین بے ضابطگیوں اور بورڈ کی بد انتظامی سے عمران خان کو آگاہ کیا۔‘‘ عامرنواب کے بقول وفاق اور پنجاب میں حکومتی تشکیل کے بعد کرکٹ بورڈ میں تبدیلی عمران خان کے ایجنڈے میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اسی ملاقات میں موجود پی ٹی آئی کے ’انصاف اسپورٹس اینڈ کلچر ونگ‘ کے ایگزیکٹیو رکن طارق فرید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان ہمیشہ سےقومی اداروں میں سیاسی تقرریوں کے خلاف رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’نجم سیٹھی کی تقرری سب کوعلم ہےکہ سیاسی تھی۔ عمران خان پاکستان کرکٹ ٹیم کو تینوں فارمیٹس میں نمبر ون دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ریجنل صدور کو بتایا کہ پاکستان کرکٹ کا نیا ڈھانچہ آسٹریلوی طرز پر ریجنل بینادوں پر استوار کیا جائے گا اور کرکٹ بورڈ کے مالی معاملات کا جلد مکمل آڈٹ ہوگا۔‘‘
نجم سیٹھی کا تقرر سابق پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں پانچ برس پہلے کیا گیا تھا اور ان کے عہدے کی آئینی مدت اگست 2020ء تک باقی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے تین ایڈیشنز کامیابی سے ہمکنار ہونے اور ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور ورلڈ الیون کو پاکستان آ کر کھیلنے پر قائل کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیا میں نجم سیٹھی کو کافی حمایت مل رہی ہے۔ تاہم سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان کہتے ہیں کہ انہیں پی سی بی میں تبدیلی یقینی دکھائی دیتی ہے۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
محسن خان کا کہنا تھا، ’’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی رینکنگ اس وقت سات ہے۔ دنیا ٹیسٹ کرکٹ کو اولیت دیتی ہے جب کہ پیسہ اور ٹی ٹوئنٹی پی سی بی کا نصب العین بن چکا ہے۔‘‘ نجم سیٹھی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سابق اوپنر نے کہا کہ ’ایک صحافی کی کرکٹ بورڈ سے وابستگی ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر کوانجئیر کا کام سونپ دیا جائے‘۔
محسن خان کا مزید کہنا تھا ’’پاکستان سپرلیگ کے ویران اماراتی میدانوں میں انعقاد اور تیسرے درجے کی ٹیموں کو پاکستان بلانے کو اگرکوئی اپنی کامیابی سے تعبیر کرے تو اس پر کچھ نہ ہی کہنا بہتر ہوگا۔‘‘ محسن خان نے یقین ظاہر کیا کہ عمران خان کے دور میں صرف کرکٹ ہی نہیں دوسرے کھیلوں میں بھی بہتری اور میرٹ آئے گا اور داغدار لوگوں کو کھیل سے دور رکھا جائے گا۔
دوسری طرف بورڈ میں ممکنہ تبدیلی کا اندازہ کرکٹ بورڈ میں منعقد ہونے والے موجودہ انتظامیہ کے ہنگامی اقدامات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ بورڈ میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے افسران کی تنخواہوں میں اچانک غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کے دست راست سمجھے جانیوالے سابق ٹیسٹ کرکٹر ذاکر خان نے ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ پی سی بی کے عہدے پر بحالی کی موجودہ انتظامیہ کی پیشکش ٹھکرا دی ہے۔ ذاکر خان گزشتہ پانچ برس سے زیر عتاب رہے تھے۔ عام خیال یہی ہے کہ ذاکر کو مسلسل اوایس ڈی بنائے رکھنے کا سبب ان کی عمران خان سے دوستی تھی۔
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔