تحریک انصاف اتحادیوں کی تلاش میں، مخالفین کے احتجاجی منصوبے
شمشیر حیدر اے ایف پی کے ساتھ
28 جولائی 2018
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ دوسری جانب مخالف جماعتوں نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے مظاہروں کی تیاری شروع کر دی ہے۔
اشتہار
پاکستان الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تقریبا سبھی نشستوں کے غیر سرکاری نتائج جاری کر دیے ہیں۔ نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو 116 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جب کہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون 64 اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین 43 نشتیں حاصل کر پائی۔
مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کے درجنوں حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں بھی جمع کرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور کئی حلقوں میں یہ عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔
مخلوط حکومت بنانے کے لیے مذاکرات شروع
پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر تو سامنے آئی ہے لیکن سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی۔ حکومت بنانے کے لیے کم از کم 137 نشستوں کی ضرورت ہے۔ پارٹی نے ممکنہ اتحادی جماعتوں کی تلاش اور ان سے مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کو اتحادی جماعتوں کی تلاش میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد احمد چوہدری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے کیے ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات جلد ہی اسلام آباد میں ہو گی۔‘‘ پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نعیم الحق کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو توقع ہے کہ یوم آزادی پاکستان، یعنی چودہ اگست سے قبل ان کی جماعت حکومت تشکیل دینے میں کامیاب رہے گی۔
نعیم الحق کے مطابق، ’’ہمیں امید ہے کہ عمران خان چودہ اگست سے پہلے ہی ملکی وزارت عظمی کے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے۔‘‘
دیگر جماعتیں احتجاجی مظاہروں کی تیاری میں
پاکستان مسلم لیگ نون سمیت کئی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یورپی یونین کے مبصرین سمیت کئی غیر ملکی معائنہ کاروں کی جانب سے پاکستان انتخابات کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
دوسری جانب گزشتہ روز درجن سے زائد سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی۔ ان جماعتوں نے مشترکہ طور پر انتخابات کے نتائج قبول نہ کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم یہ جماعتیں قومی اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کے معاملے پر منقسم دکھائی دیں۔ کچھ جماعتوں نے دوبارہ انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شمولیت اختیار نہیں کی تاہم انہوں نے بھی نتائج قبول کرنے سے انکار کرنے کا اعلان کیا۔
تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ان کی رائے میں اے پی سی میں شامل جماعتیں ملک کے کچھ علاقوں میں تو مظاہرے کر پائیں گی لیکن ملکی سطح پر زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو پائیں گی۔
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔