1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا حزب اختلاف چیلنجز سے نمٹ لے گی؟

8 اپریل 2022

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد امکان ہے کہ پی ٹی آئی ایوان میں اکثریت کھو دے اور نئی حکومت شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہو لیکن کئی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا حزب اختلاف ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کر سکے گی۔

Pkistan I Imran Khan
تصویر: Akhtar Soomro/File Photo/REUTERS

سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی نے ایک طرف ایک کمیشن کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے، جو مبینہ سازش کے پیچھے کرداروں کو بے نقاب کرے گا۔ اسی اثنا پی ٹی آئی ملک کے طول و عرض پر جلسے منعقد کرے گی، جس میں حزب اختلاف کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا۔

معاشی بدحالی

 معاشی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے۔ ڈالر آسمان کی بلندی پر اور قرضوں کا بوجھ عوام پر۔ ملک پر ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جبکہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت کا مزید جنازہ نکلے گا۔

سفارتی محاذ

سفارتی محاذ پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ چین سی پیک کی رفتار سست ہونے سے پریشان ہے۔ امریکہ، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے جب کہ یورپی یونین کی بھی کم و بیش پاکستان کے بارے میں وہی رائے ہے، جو امریکہ کی ہے۔

جمہوری اور سیاسی اثرات کے حامل اہم عدالتی فیصلے

سپریم کورٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بحال کرنے کا فیصلہ

غداری کی دو لکیریں اور تاریخ کی درست سمت

ناقدین کا خیال ہے کہ اس صورت حال کے پیش نظر حزب اختلاف کو مسائل حل کرنے اور انتظام حکومت چلانے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

معاشی مسائل کا حل

معروف معیشت دان قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی لیکن بات چیت کیسے کرنی ہے، یہ اہم بات ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، '' آئی ایم ایف قرضوں کی وصولی چاہتا ہے۔ تو اس کے لیے یا تو ہمیں غیر پیداواری اخراجات کم کرنے چاہیں یا پھر ترقیاتی پروگراموں کو معطل کرنا چاہیے۔ ایسے پروگراموں کو معطل کرنے سے عوام کے لیے مشکلات بڑھیں گی لیکن حکومت کو ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے۔‘‘

پاکستان: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کا جشن

02:57

This browser does not support the video element.

سیاسی کشیدگی بڑھے گی

معروف سیاست دان اور سابق سینیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے پاس عوام کی خدمت کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی اور عوامی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے میں عمران خان نے پورے ملک میں مظاہروں کا بھی اعلان کر دیا ہے، جس سے نہ صرف ملک میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے مداخلت کا خطرہ بھی رہے گا۔‘‘

لشکری رئیسانی کے خیال میں حکومت کو ایک عجیب سی صورت حال کا سامنا ہوگا۔ ''اگر حکومت تحریک انصاف کے مظاہروں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تو مظاہرے متشدد ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہے اور اگر حکومت چوہدری نثار کی طرح پی ٹی آئی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے، تو یہ دو ہزار چودہ کی طرح دھرنے دے کر کاروبار زندگی کو معطل کریں گے۔‘‘

قومی ایجنڈا

لشکری رئیسانی نے تجویز کیا کہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ ''حزب اختلاف کی جماعتیں ملک کو کیسے چلائیں گی یہ تو ایک دوسرے کو چور چور کہتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک قومی ایجنڈا بنایا جائے جس میں صوبوں کے حقوق اور اداروں کے آئینی حدود کے حوالے سے ڈائیلاگ ہو اور پھر ایک ایجنڈا تیار کیا جائے، جو کچھ سالوں تک نافذ کیا جائے۔ قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں