1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی زیر عتاب کیوں؟

عبدالستار، اسلام آباد
22 اگست 2022

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاون پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعوی ہے کہ اس طرح کے سخت اقدامات جمہوریت اور سیاست کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوں گے۔

Pakistan | Unterstützer von Imran Khan vor seinem Wohnsitz in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ان کی براہ راست تقریر پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے معتمد خاص پر سنگین مقدمات بنائے گئے ہیں۔ خود عمران خان کے خلاف تقریبا اٹھارہ ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے دیگر کئی رہنماؤں اور کارکنان پر بھی مقدمات درج ہیں۔ عمران خان پر ہفتے کے دن دہشت گردی کے قوانین کے تحت بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے خلاف آج انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی ہے۔

پیمرا نے عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی لگا دی ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

'کریک ڈاؤن خطرناک ہے‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن خطرناک تھا اور اب پی ٹی آئی کے خلاف بھی ایسا کوئی کریک ڈاؤن خطرناک ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی نے ایسا کیا کیا ہے کہ عمران خان کے لائیو خطاب پر پابندی لگائی جائے۔ مقدمات بنائیں جائیں اور اظہار رائے کی آزادی کو قدغن لگائی جائے۔ پی ٹی آئی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے، جس کے لیے اتنے سخت اقدامات کیے جائیں۔ اس سے سیاست اور جمہوریت دونوں کو نقصان ہو گا، جو یقینا ملک کے لیے بہت منفی ہو گا۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق عمران خان اس وقت ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں، ''کسی ایسے رہنما اور اس کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کسی بھی طرح ملک اور سیاسی جماعتوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ آج ایسا پی ٹی آئی کے خلاف ہو رہا ہے تو کل کسی اور سیاسی جماعت کے خلاف ہو گا۔‘‘

پاکستان میں ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر کریک ڈاؤن ہوا، جس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری وفاق پسند جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا، جس کو فرقہ وارانہ، نسل پرستانہ اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے پر کیا۔ مبصرین کا دعوی ہے کہ ان میں سے کچھ عناصر نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور ملک کے لیے بے شمار مسائل پیدا کیے۔

کریک ڈاؤن سے شہرت ملے گی

ایم کیو ایم کی رہنما کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں آبادی کے کئی حصے امریکی مخالفت کو پسند کرتے ہیں اور ایسے رہنماؤں کے پیچھے بھی جاتے ہیں، جو امریکہ کے خلاف بولیں۔ عمران خان نے یہ نعرہ لگا کر مقبولیت حاصل کی اور اگر ان کے خلاف ایسی صورت میں کریک ڈاؤن بڑھتا ہے، تو اس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو گا۔‘‘

پی ٹی آئی کی لانگ مارچ کے خلاف حکومت کی رکاوٹیں

02:13

This browser does not support the video element.

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کیا جانا چاہیے، ''پی ٹی آئی نے بھی رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا تھا اور ن لیگ کے خلاف سختیاں کی تھیں، جو بالکل مناسب نہیں تھیں۔ بالکل اسی طرح پی ٹی آئی کے خلاف بھی مقدمے بازی، گرفتاری یا کریک ڈاؤن مناسب نہیں۔ ملک میں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی آئی ہوئی ہے۔ لوگ مر رہے ہیں اور ان کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔ کریک ڈاؤن کی بجائے، اس پر توجہ دی جائے۔‘‘

کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا

جہاں پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے حلقے عمران خان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کا دعوی کر رہے ہیں، وہیں کچھ سیاسی جماعتیں اور مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا۔ اس کے برعکس عمران خان کو وہ اب بھی لاڈلا کہہ رہے ہیں۔ آج پی پی پی کے رہنما سعید غنی نے یہ شکوہ کیا کہ عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی جب کہ ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے بھی کچھ اس ہی طرح کے دعوے کیے۔ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے صرف کریک ڈاؤن کا شور مچایا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی۔ پی پی پی کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں نے قید و بند کی صعوبیتں برداشت کیں۔ کوڑے کھائے اور جبر کا سامنا کیا۔ ن لیگ کے رہنماؤں نے بھی جیل اور جلا وطنی دیکھی۔ مفتی محمود نے بھی جمہوریت کے لیے مشکلات جھیلیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا اور عمران خان پورے ملک میں مزے سے جلسے کر رہے ہیں۔ ان پر کوئی روک تھام نہیں ہے۔‘‘

دارالحکومت کے کئی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاون کو سخت کرتے ہوئے عمران خان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، جس کی کچھ سیاست دان بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے نہ معلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے، جس میں یہ دعوی کیا ہے کہ پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری نے ایسی کسی بھی گرفتاری کی مخالفت کی ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں