پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاون پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعوی ہے کہ اس طرح کے سخت اقدامات جمہوریت اور سیاست کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوں گے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
اشتہار
واضح رہے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ان کی براہ راست تقریر پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے معتمد خاص پر سنگین مقدمات بنائے گئے ہیں۔ خود عمران خان کے خلاف تقریبا اٹھارہ ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے دیگر کئی رہنماؤں اور کارکنان پر بھی مقدمات درج ہیں۔ عمران خان پر ہفتے کے دن دہشت گردی کے قوانین کے تحت بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے خلاف آج انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی ہے۔
پیمرا نے عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی لگا دی ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance
'کریک ڈاؤن خطرناک ہے‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن خطرناک تھا اور اب پی ٹی آئی کے خلاف بھی ایسا کوئی کریک ڈاؤن خطرناک ہو گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی نے ایسا کیا کیا ہے کہ عمران خان کے لائیو خطاب پر پابندی لگائی جائے۔ مقدمات بنائیں جائیں اور اظہار رائے کی آزادی کو قدغن لگائی جائے۔ پی ٹی آئی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے، جس کے لیے اتنے سخت اقدامات کیے جائیں۔ اس سے سیاست اور جمہوریت دونوں کو نقصان ہو گا، جو یقینا ملک کے لیے بہت منفی ہو گا۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق عمران خان اس وقت ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں، ''کسی ایسے رہنما اور اس کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کسی بھی طرح ملک اور سیاسی جماعتوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ آج ایسا پی ٹی آئی کے خلاف ہو رہا ہے تو کل کسی اور سیاسی جماعت کے خلاف ہو گا۔‘‘
پاکستان میں ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر کریک ڈاؤن ہوا، جس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری وفاق پسند جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا، جس کو فرقہ وارانہ، نسل پرستانہ اور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے پر کیا۔ مبصرین کا دعوی ہے کہ ان میں سے کچھ عناصر نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور ملک کے لیے بے شمار مسائل پیدا کیے۔
کریک ڈاؤن سے شہرت ملے گی
ایم کیو ایم کی رہنما کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں آبادی کے کئی حصے امریکی مخالفت کو پسند کرتے ہیں اور ایسے رہنماؤں کے پیچھے بھی جاتے ہیں، جو امریکہ کے خلاف بولیں۔ عمران خان نے یہ نعرہ لگا کر مقبولیت حاصل کی اور اگر ان کے خلاف ایسی صورت میں کریک ڈاؤن بڑھتا ہے، تو اس سے انہیں سیاسی فائدہ ہو گا۔‘‘
پی ٹی آئی کی لانگ مارچ کے خلاف حکومت کی رکاوٹیں
02:13
This browser does not support the video element.
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں حل کیا جانا چاہیے، ''پی ٹی آئی نے بھی رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا تھا اور ن لیگ کے خلاف سختیاں کی تھیں، جو بالکل مناسب نہیں تھیں۔ بالکل اسی طرح پی ٹی آئی کے خلاف بھی مقدمے بازی، گرفتاری یا کریک ڈاؤن مناسب نہیں۔ ملک میں سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی آئی ہوئی ہے۔ لوگ مر رہے ہیں اور ان کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔ کریک ڈاؤن کی بجائے، اس پر توجہ دی جائے۔‘‘
کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا
جہاں پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے حلقے عمران خان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کا دعوی کر رہے ہیں، وہیں کچھ سیاسی جماعتیں اور مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا۔ اس کے برعکس عمران خان کو وہ اب بھی لاڈلا کہہ رہے ہیں۔ آج پی پی پی کے رہنما سعید غنی نے یہ شکوہ کیا کہ عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی جب کہ ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے بھی کچھ اس ہی طرح کے دعوے کیے۔ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے صرف کریک ڈاؤن کا شور مچایا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی۔ پی پی پی کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں نے قید و بند کی صعوبیتں برداشت کیں۔ کوڑے کھائے اور جبر کا سامنا کیا۔ ن لیگ کے رہنماؤں نے بھی جیل اور جلا وطنی دیکھی۔ مفتی محمود نے بھی جمہوریت کے لیے مشکلات جھیلیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا اور عمران خان پورے ملک میں مزے سے جلسے کر رہے ہیں۔ ان پر کوئی روک تھام نہیں ہے۔‘‘
دارالحکومت کے کئی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاون کو سخت کرتے ہوئے عمران خان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، جس کی کچھ سیاست دان بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے نہ معلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے، جس میں یہ دعوی کیا ہے کہ پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری نے ایسی کسی بھی گرفتاری کی مخالفت کی ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔