پی ٹی آئی کا احتجاج، اسلام آباد و راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ
2 دسمبر 2025
پاکستان تحريک انصاف کا مطالبہ ہے کہ سابق وزیراعظم کے اہلِ خانہ اور پارٹی رہنماؤں کو ان سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ راولپنڈی میں بڑے احتجاج کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان نے اجتماعات پر پابندی اور دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر اکٹھا ہونے کا یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا، جب ان شہروں میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ دارالحکومت ميں 18 نومبر سے دو ماہ کے لیے یہ پابندی نافذ ہے جبکہ راولپنڈی کی انتظامیہ نے پیر کے روز تین روزہ پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے دونوں ایوانوں کے ارکانِ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کریں گے اور پھر اپنا مظاہرہ اڈیالہ جیل تک لے جائیں گے۔ ان کے مطابق احتجاج کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرا سکی اور اڈیالہ جیل انتظامیہ بھی عدالتی حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے آٹھویں مرتبہ ملاقات سے روکے جانے کے بعد جیل کے باہر دھرنا دیا تھا۔ اسی طرح عمران خان کے اہلِ خانہ کو بھی کئی ہفتوں سے ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کی صحت کے بارے میں قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں۔
عمران خان کی صحت کے حوالے سے خدشات
سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے بھی اپنے والد کی صحت سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکام ممکہ طور پر کچھ چھپا رہے ہیں کیونکہ تین ہفتوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا جس سے معلوم ہو کہ وہ زندہ ہیں۔ قاسم خان نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود ہفتہ وار ملاقاتوں کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی قابلِ تصدیق رابطہ ہوا ہے۔
قاسم نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ 'یہ نہ جاننا کہ آپ کے والد محفوظ ہیں، زخمی ہیں یا زندہ بھی ہیں یا نہیں، ذہنی اذیت کی ایک شکل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کئی ماہ سے کوئی آزادانہ طور پر تصدیق شدہ رابطہ نہیں ہوا۔ ''آج ہمارے پاس ان کی حالت کے بارے میں بالکل کوئی قابلِ تصدیق معلومات موجود نہیں۔ ہمارا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ہم سے کوئی بات چھپائی جا رہی ہے۔‘‘
قاسم نے کہا،''یہ صرف سیاسی تنازعہ نہیں ہے، یہ انسانی حقوق کی ہنگامی صورتحال ہے۔‘‘
تاہم روئٹرز کے مطابق جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس خبر رساں ادارے کو بتایا کہ عمران خان کی صحت ٹھیک ہے۔
عمران خان پر مقدمات
عمران خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں۔ انہیں متعدد مقدمات میں سزا سنائی گئی جنہیں ان کے حامی وسیع طور پر سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات قرار دیتے ہیں، جو 2022 میں پارلیمانی عدم اعتماد ووٹ کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے بعد شروع ہوئے۔
انہیں پہلی سزا اس مقدمے میں سنائی گئی جس میں الزام تھا کہ انہوں نے بطورِ وزیراعظم ملنے والے تحائف غیر قانونی طور پر فروخت کیے، جسے عام طور پر توشہ خانہ کیس کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں مزید فیصلوں میں انہیں طویل مدت کی سزائیں سنائی گئیں، جن میں ایک سفارتی مراسلہ افشا کرنے کے الزام میں 10 سال قید، اور ایک الگ مقدمے میں 14 سال قید شامل ہے، جو’’القادر ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک فلاحی منصوبے کے تحت مبینہ طور پر غیر قانونی اراضی کے معاملات سے متعلق ہے۔
ادارت: عاصم سليم