لاہور میں پی ٹی آئی کی خواتین کو رہائی کیوں نہیں مل پا رہی؟
22 ستمبر 2023ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بیرسٹرخدیجہ صدیقی نے بتایا جیل میں پی ٹی آئی کی خواتین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ احتجاج کو اپنا آئینی اور جمہوری حق سمجھتی ہیں۔
اس خاتون وکیل نے دعویٰ کیا کہ یہ خواتین رہائی کے بدلے ریاستی اداروں کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ تحریری طور پر اس بات کا اعتراف کریں کہ نو مئی کا احتجاج کرنے کے لیے انہیں عمران خان یا ڈاکٹر یاسمین راشد نے اکسایا تھا۔ برطانیہ سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے والی بیرسٹرخدیجہ صدیقی پی ٹی آئی کی کئی خواتین کی وکیل ہیں۔ وہ جیل میں قید پی ٹی آئی کی خواتین سے ملتی رہتی ہیں اور ان کے حالات سے آگاہی رکھتی ہیں۔
جیل میں ناروا سلوک کی شکایت
بیرسٹرخدیجہ صدیقی بتاتی ہیں کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کی خواتین کی تعداد بیس کے لگ بھگ ہے۔ ان کے مطابق جیل تو جیل ہی ہوتی ہے، ''جیل کی سختیاں برداشت کرنا مردوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا یہ تو پھر خواتین ہیں اور ان میں سے کئی ایسی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی آسائشوں والے ماحول میں گزاری ہے۔ اب جب ان کو گھر کا کھانا دستیاب نہیں ہوتا، مناسب طبی سہولتیں نہیں ملتیں، ان کے گھر والوں سے ملاقات میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘
بیرسٹرخدیجہ صدیقی نے بتایا کہ ان خواتین میں سے کئی خواتین کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ انہیں (جو کہ محض سیاسی قیدی ہیں) رات میں سنگین جرائم میں ملوث خواتین کے ساتھ بند کر دیا جاتا ہے، جس سے کئی مرتبہ انہیں رات کو نیند نہیں آتی۔
صحت کے مسائل
ان کے مطابق پی ٹی آئی کی اسیر خوتین کی اکثریت بیمار ہے،کسی کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے اور کسی کو یورک ایسڈ کی تکلیف ہے، ''ایک خاتون کے پاؤں سوجے ہوئے ہیں۔ کئی خواتین نفسیاتی طور پر بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ صنم جاوید، طیبہ راجہ، عالیہ حمزہ اور روبینہ جمیل کی طبیعت بھی بہتر نہیں رہتی۔ خود ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر سروائیور ہیں اور انہیں سانس اور بلڈ پریشر کی تکالیف ہیں انہیں چند دن پہلے شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کے ٹیسٹ کیے گئے۔‘‘
پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی کے گرفتار لوگوں کی مشکلات جوڈیشنل ریمانڈ سے پہلے تک تو تھیں اب تو جیل کا عملہ بھی ان پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی خواتین کا احترام کرتا ہے اور ان کا خیال رکھ رہا ہے۔
خواتین کے گھروں کا کیا حال ہے؟
بیرسٹرخدیجہ صدیقی بتاتی ہیں کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید شادی شدہ ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ خدیجہ شاہ کا بیٹا پانچ سال کا ہے عالیہ حمزہ کی بیٹیاں چھوٹی ہیں۔ سب کے اہل خانہ پریشان ہیں، ''طیبہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں اور وہ اپنے گھر کی کفالت خود کرتی تھیں۔ وہ صحافت کر رہی تھیں۔ وہ اپنا کپڑوں کا برانڈ بھی متعارف کروانے والی تھیں۔ اب جس گھر کا کمانے والا جیل میں ہو تو اس کا کیا حال ہو گا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ ‘‘
ملاقات کیسے ہوتی ہے؟
بیرسٹرخدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ جیل کی روایات کے مطابق ہر قیدی کے گھر والے سوموار کے روز اسے بارہ بجے سے دو بجے تک مل سکتے ہیں۔ لیکن ملاقات سے پہلے مرحلوں میں گھر والوں کو اس قدر انتظار کروایا جاتا ہے کہ ملاقات کے لیے دس پندرہ منٹ ہی بچتے ہیں۔
راولپنڈی کے راجہ عاشق کوٹ لکھپت میں قید پی ٹی آئی کی رہنما اور اپنی بیٹی طیبہ راجہ سے ملنے کے لیے لاہور آتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک ہفتے میرا بیٹا طیب آتا ہے اور ایک ہفتے میں آتا ہوں۔ اس ملاقات میں ہمارے دو دن صرف ہو جاتے ہیں۔ جیل میں ہر مرحلے پر رشوت دینی پڑتی ہے، رشوت نہ دیں تو وہ سامان نکال لیتے ہیں۔ بڑی مشکل سے بیس منٹ کی ملاقات ہوتی ہے پھر جیل کا عملہ آ کر دباؤ ڈالتا ہے کہ ملاقات ختم کرو اور پانچ منٹ زیادہ رکنا چاہیں تو پانچ سو روپے دینا پڑتے ہیں۔ طیبہ میرے پانچ بچوں میں سے سب سے بڑی ہے اور غیر شادی شدہ ہے۔ میں اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو ساتھ نہیں لاتا کہ کہیں وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب نہ ہو جائیں۔‘‘ راجہ عاشق بتاتے ہیں کہ پچھلی ملاقات پر ڈاکٹر یاسمین راشد نے مجھے بتایا تھا ''تسیں فکر نہ کرو ۔ طیبہ میری بیٹی اے میں اس دا خیال رکھدی آن‘‘
ڈاکٹر یاسمین راشد کا کیا حال ہے؟
پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین میں سب سے عمر رسیدہ پارٹی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی عمر تہتر سال ہے۔ ان کے ایک عزیز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ کے چار بچے ہیں بڑی بیٹی، جو سینیئر ڈاکٹر ہے اپنے ایک تعلیمی پروگرام کے سلسلے میں برطانیہ میں ہے۔ ایک بیٹا پائلٹ ہے جو دبئی میں ہوتا ہے، ایک بیٹا امریکہ میں فنانشیئل کنسلٹنٹ ہے جبکہ ایک آئل کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز ان کا ایک بیٹا پاکستان میں ہے۔ ان کے بقول یہ سب لوگ سارا دن گھڑی گھڑی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں معلومات لیتے رہتے ہیں، ''پہلے پہل جیل میں سختی بہت زیادہ تھی لیکن اب صورتحال کچھ نارمل ہونا شروع ہوئی ہے۔ اگرچہ وہ بیمار ہیں اور ان کی عمر بھی زیادہ ہے لیکن وہ سٹوڈنٹ لیڈر رہی ہیں۔ مشکلات سے گھبراتی نہیں بلکہ دوسروں کو حوصلہ دیتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی دکھ ہے کہ ان کے جیل جانے سے ان کے فلاحی منصوبے بھی بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی خواتین کی ضمانت کیوں نہیں ہو رہی؟
بیرسٹرخدیجہ صدیقی بتاتی ہیں کہ پاکستان میں نظام انصاف کی خرابیوں کی وجہ سے بھی ان خواتین کی ضمانت نہیں ہو پا رہی۔ وہ کہتی ہیں کہ پولیس، تفتیشی عملے اور پراسیکوٹرز کے تاخیری حربے بھی مشکلات کا باعث بن رہے ہیں، ''پاکستانی قانون کہتا ہے کہ خواتین کی ضمانت کے کیسز فوری طور پر سنے جائیں اور انہیں ضمانت دینے میں نرمی کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہاں قتل کے مقدمات میں بھی خواتین کو ضمانت مل جاتی ہے لیکن ہم ساڑھے چار ماہ سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔‘‘
بیرسٹرخدیجہ صدیقی کے مطابق ماتحت عدالت سے ضمانت کی درخواست مسترد ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ میں رجوع کیا گیا وہاں ڈھائی مہینوں بعد سرکار نے بتایا کہ ان خواتین کے مقدمات میں نئی دفعات لگائی گئی ہیں، ''اس پر چھ ستمبر کو ہمیں دوبارہ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کرنے کا کہا گیا۔ وہاں گئے تو عدالت میں جج صاحب نہیں تھے۔ دو دن پہلے ان کا تقرر ہوا۔ اس سے پہلے ڈھائی ماہ لاہور ہائی کورٹ میں ضمات کی درخواست زیر التوا رہی۔کبھی پراسیکوٹر تاریخ لے لیتے اور کبھی تفتیشی عملہ رخنہ اندازی کرتا رہا۔ اب پھر شروع سے کارروائی شروع ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو اتنے مہینوں بعد یہ کیوں یاد آیا کہ یہ خواتین ان جرائم میں بھی ملوث تھیں۔‘‘
بیرسٹرخدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر تو زیادہ تر خواتین پر نو مئی کے واقعات پر ملوث ہونے کا الزام ہے کسی خاتون پر پتھر پھینکنے اور کسی پر ڈنڈے مارنے کا الزام ہے۔
یاد رہے، پاکستان میں انسانی حقوق کا کمیشن کہہ چکا ہے کہ پی ٹی آئی سے وابستہ گرفتارشدہ عورتوں کی حراست کے معاملے میں شفافیت کا فقدان باعثِ تشویش ہے۔