1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لانگ مارچ اور پی ٹی آئی کا نیا دھرنا کتنے مختلف ہوں گے؟

شازیہ محبوب
21 نومبر 2024

دفعہ 144 اور ساری حکومتی مشینری کے مقابلے میں پی ٹی آئی ’چالیس ہزار‘ افراد بھی جمع کر پائے گی؟ ’فائنل کال‘ دینے سے قبل عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت کے بجائے ’اصل اقتدار رکھنے والوں‘ سے مکالمت کو ترجیح دیں گے۔

Pakistan Islamabad | Container aufgestellt vor Protest der PTI
تصویر: Shazia Mehboob/DW

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چوبیس نومبر کو 'فائنل کال‘ کا دن قرار دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبران یا سیاسی وابستگی رکھنے والے افراد پاکستان بھر سے لانگ مارچ میں شریک ہونے کو تیار ہیں۔

لانگ مارچ میں شریک ان افراد  کی منزل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہو گا، جہاں دھرنا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے نئے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چوبیس نومبر کو اسلام آباد میں دیا جانے والا یہ دھرنا اس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا، جب تک پارٹی کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔

قبل ازیں عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا تھا کہ26 ویں ترمیم کا خاتمہ، 'چوری کیے گئے‘ عوامی مینڈیٹ کی واپسی اور عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں عمران خان کی عوامی مقبولیت سے انکار ہرگز نہیں کیا جا سکتا تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے اس لانگ مارچ کو ناکام بنا سکتی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت پر جب عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے اہم رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

لانگ مارچ کی تیاریاں

تاہم گزشتہ الیکشن میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرنے والی جماعت 'پاکستان تحریک انصاف‘ ملک بھر سے ہزاروں کارکنوں کو اسلام آباد لانے کی تیاریاں کر رہی ہے جب کہ حکومت اس احتجاج کو روکنے کے لیے راستے بلاک کرنے، کریک ڈاؤن اور گرفتاریاں کرنے سمیت سبھی حربے استعمال کر رہی ہے۔

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان

02:18

This browser does not support the video element.

دھمکیوں، گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکن 24 نومبر کے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس بار مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج ممکنہ طور پر عمران خان کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کن لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنان احتیاط کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ادھر اسلام آباد پولیس نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ شہر اقتدار میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ اہم مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جا رہی ہے اور سڑکوں پر بڑی تعداد میں کنٹینرز بھی رکھے جا رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین اس بار پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ احتجاج ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے جب بشریٰ بی بی کو عدالتوں سے رہائی مل چکی ہے اور عمران خان کی توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں ضمانت بھی ہو گئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کی طاقتور حلقوں کے ساتھ کسی ممکنہ ڈیل کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان کی ضمانت ایک اہم پیش رفت؟

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی ضمانت ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے، جو پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے۔

فواد چوہدری کے مطابق اس پیش رفت نے کارکنان اور عوام میں حوصلہ اور جوش پیدا کر دیے ہیں اور اب عوام کو متحرک کرنے کے لیے غیر معمولی کوششوں کی ضرورت نہیں ہو گی، بلکہ وہ خود ہی سڑکوں پر نکلیں گے۔

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے لانگ مارچ میں چالیس ہزار سے زائد لوگ لے کر آئیں گے، جنہیں روکنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی اور وہ جمہوریت اور آئین کی 'بحالی‘  تک دھرنا جاری رکھیں گے۔

کیا حکومت کے پاس  پی ٹی آئی کو دینے کے لیے کچھ ہے بھی؟

سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضال نے ڈی ڈبلیو  سے گفتگو میں کہا کہ  حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو مذاکرات میں پیش کرنے کے لیےکوئی ٹھوس پیکج نہیں ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضال نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف زیر التوا مقدمات عدالتی دائرہ کار میں ہیں، اس لیے حکومت پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتی، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر، جب نو مئی کے مقدمات ابھی تک زیر سماعت ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے بارہا اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حکومت سے نہیں بلکہ اصل اقتدار رکھنے والوں سے ہی مذاکرات کرنے کو تیار ہیں، ''حکومت کا پی ٹی آئی کے مطالبات کو ماننے کا مطلب ہے خود کو غیر قانونی قرار دینا، اور وہ یہ خطرہ مول نہیں لے گی۔‘‘

تحریک انصاف بریک تھرو پر احتجاج ملتوی کرے گی؟

پی ٹی آئی کے رہنما کہتے ہیں کہ چوبیس نومبر سے قبل اگر مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے، تو یہ اس کے مؤثر ہونے کے لیے بہترین وقت ہو گا۔ تاہم اگر حکومت مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے، تو یہ امر موجودہ تنازعے کو مزید شدت دے گا، جو کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر مجیب افضل کے بقول عمران خان کو اپنے خلاف قانونی مقدمات کو نمٹانے اور خود کو سیاسی طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ''اسٹیبلشمنٹ سے گرین سگنل‘‘ کی ضرورت ہو گی۔

تاہم پرتشدد لانگ مارچ کے امکان کو رد کرتے ہوئے ڈاکٹر مجیب افضل نے کہا اب نو مئی جیسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہو گا اور نہ ہی ہونے دیا جائے گا، ''یہ ایک بڑی غلطی تھی جو پی ٹی آئی نے شاید بحران سے نکلنے کے لیے کی تھی۔ وہ ہجوم اب موجود نہیں ہے، اور نہ ہی وہ مقصد حاصل ہو سکا جو وہ چاہتے تھے۔‘‘

عمران خان کا سیاسی سفر، تحریک عدم اعتماد تک

04:08

This browser does not support the video element.

حکومت لانگ مارچ کو روک پائے گی؟

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کے مطابق اگر پی ٹی آئی چالیس ہزار سے زائد لوگوں کواکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس لانگ مارچ کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔ انہوں نے البتہ کہا کہ پی ٹی آئی چالیس ہزار سے کہیں زیادہ افراد کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کو اپنا احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ''اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد بنا کر ڈیل کرنے سے گریز کرے،‘‘ کیونکہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔

ڈاکٹر مجیب افضل کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کی کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کتنے لوگوں کو سڑکوں پر لاتی ہے، کیونکہ اسی سے پتہ چلے گا کہ اس کی طاقت کتنی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کو زیادہ سے زیادہ طول دے کر لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ حکومت کے لیے مسائل بڑھائے جا سکیں۔

اس احتجاج میں نقصان کس کا؟

اسلام آباد میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ دفاع اور اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ ڈائریکٹر خارجہ امور ڈاکٹر سلمیٰ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی بھی قسم کا دھرنا، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی، عام آدمی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

ڈاکٹر سلمیٰ نے مزید کہا کہ ماضی میں مذہبی اداروں کو خاص طور پر حکومت میں اہم اسٹیک ہولڈرز کی مدد سے سہولت فراہم کی گئی، جس سے ایک ایسی فضا پیدا ہوئی، جہاں وہ مؤثر طریقے سے شہروں کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ طریقہ پورے ملک میں اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس صورتحال کی وجوہات کی بنا پر سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا اور ڈی چوک کو بلاک کرنا ایک معمول بن گیا۔

ڈاکٹر سلمیٰ کے بقول ایسے احتجاج اور دھرنوں کی انسانی قیمت کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ اور معیشت پر بھی بھاری اثر پڑتا ہے، خاص طور پر جب جڑواں شہروں کے جنکشن بلاک کر دیے جائیں اور پورے علاقے کو گھیر لیا جائے۔ ''اس کے نتیجے میں نہ صرف لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو جاتی ہے بلکہ بازار اور کاروبار بھی بند ہو جاتے ہیں، جس کا براہ راست اثر عام آدمی اور ملک کی معیشت پر پڑتا ہے۔‘‘

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی احتجاج جمہوریت کا ایک اہم جزو ہے اور اسے پنپنے کی آزادی ملنا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ احتجاج پر امن ہو اور اسے دبانے یا محدود کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں