پی ٹی آئی اور جی ایچ کیو میں تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر؟
10 مئی 2023ایک وقت تھا جب پاکستان تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی چہیتی جماعت سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ صورتحال بظاہر یکسر بدل چکی ہے۔ ایک طرف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر مظاہرے اور احتجاج ہو رہے ہیں تو دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات کی حقیقی نوعیت کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا اب یہ تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں؟
القادر ٹرسٹ کیس : عمران خان گرفتار ملک ریاض کی باری کب آئے گی؟
واضح رہے کہ منگل کے روز اپنے قائد کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنان نے راولپنڈی میں واقع مسلح افواج کے صدر دفتر جی ایچ کیو اور کور کمانڈر لاہو کی رہائش گاہ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔
نو مئی سیاہ دن
تاہم حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ فوجی دفاتر پر حملے کرنے والوں سے کسی طرح کی بھی صلح کا امکان نہیں بلکہ ان سے غالبا آہنی طریقے سے نمٹا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کی آج جاری کی جانے والی پریس ریلیز بھی اس ارادے کی عکاس دکھائی دیتی ہے، جس میں نو مئی کو ایک سیاہ دن قرار دیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کا حوالے دیتے ہوئے فوجی ترجمان نے کہا، ’’اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سےآرمی کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ جو کام ملک کے ابدی دشمن پچھترسال میں نہ کرسکے، وہ اقتدار کی حوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر د کھایا ہے۔‘‘
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ فوج کو اچھی طرح علم ہے کہ اس کے پیچھے پارٹی کے کچھ شر پسند لیڈروں کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشگی منصوبہ بندی تھی اور ہے۔ فوجی حکام کی طرف سے خبر دار کیا گیا ہے کہ جو سہولت کار، منصوبہ ساز اورسیاسی بلوائی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جائے گی اور یہ تمام شر پسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔’’
کشیدگی برقرار
کل سے لے کر آج تک ملک کے کچھ شہروں میں پرتشدد مظاہرےجاری ہیں، جن میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جب کہ کم از کم چار افراد ہلاک بھی ہوئے۔ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید مرکزی رہنماؤں کو گرفتار کیا جائے گا۔
پنجاب میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کو طلب کرلیا گیا ہے اور اس طرح کی درخواست خیبرپختونخواہ نے بھی مرکزی حکومت کو دے دی ہے، جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر جارہا ہے کہ ماضی کے حلیفوں یعنی جی ایچ کیو اور پی ٹی آئی کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
پنجاب بھر میں ایک ہزار سے زائد گرفتاریاں، انٹرنیٹ سروس معطل
آج پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آئی ہیں، جس سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پر کل کے واقعات سے کسی حد تک کوئی تعلق ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کی لیکس سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
پوائنٹ آف نو ریٹرن
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں فوج مخالف بیانات پر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف سخت کارروائی ہوتی ہے۔ تاہم چند سیاسی رہنماؤں کے مطابق اس حوالے سے پی ٹی آئی کا معاملہ مختلف رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سال سے فوج کی قیادت کے خلاف پی ٹی آئی کے بیانیے پر اس طرح کا سخت ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا، جو ماضی میں دیگر سیاسی قیادت کے خلاف دیکھنے میں آتا رہا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری پر عالمی ردِعمل، قانون کے احترام پر زور
تاہم سیاسی مبصرین اور کچھ سیاست دانوں کے خیال میں عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد پر تشدد احتجاج کے واقعات کے بعد چیزیں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔
کراچی میں مقیم دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے جنرل باجوہ، جنرل فیصل نصیر اور دوسرے فوجی افسران کے خلاف سنگین الزامات لگائے۔ یہاں تک کہا کہ اگر انہیں(عمران خان) کچھ ہو جائے تو فیصل نصیر اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ سب کچھ انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے کہا۔ جس پر فوج میں بہت غصہ ہے۔‘‘
حارث نواز کے مطابق اب پی ٹی آئی سے اسٹیبلشمنٹ کے وہ تعلقات نہیں رہیں گے جو کبھی ماضی میں تھے۔ ''اب اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے فوج کے خلاف کوئی پراپیگنڈہ کیا، تو اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ قانون حرکت میں آئے گا اور سخت ایکشن ہوگا۔‘‘
نرمی نہیں برتی جائے گی
پاکستان میں فوج کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ سیاست دانوں کی تخلیق کار رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان سمیت سارے سیاست دانوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے سیاسی کردار کی آبیاری جی ایچ کیو کی نرسری میں کی گئی۔ لیکن بعد میں ان تمام مذکورہ سیاست دانوں کے فوج کے طاقت ور ادارے سے اختلافات پیدا ہوئے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلی سردار اسلم رئیسانی کا خیال ہے کہ فوج کی اعلی قیادت پی ٹی آئی پر چراغ پا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ''یقینا وہ(فوج) ایکشن لینا چاہتے ہیں لیکن جنرل فیض کی باقیات اور بعض ریٹائرڈ افسران کے گھرانے اب بھی عمران خان کی حمایت کررہے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ میجر لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بات کررہا ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عمران کو کوئی اطلاعات دیتا ہے، جس کا خود عمران نے بھی اعتراف کیا تھا۔‘‘
تاہم نواب رئیسانی کے مطابق اب ایکشن ہوگا، ''میرے خیال سے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملوں نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب سخت ایکشن ہوگا اور نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘‘
کیا تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے؟
گو کہ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ان تعلقات میں اب بہتری نہیں آ سکتی تاہم تجزیہ کار حارث نواز کے خیال میں اگر پی ٹی آئی اپنے رویے پر نظرثانی کرے، تو کچھ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' فوج نے عمران خان کو کہا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی شکایات ہیں اور اس کے ثبوت بھی ہیں، تو وہ ثبوت کے ساتھ قانونی راستہ اختیار کریں، جو عمران خان نے نہیں کیا۔ اگر پی ٹی آئی اپنا فوج مخالف پراپیگنڈا بند کر دے اور اداروں کا احترام کرے، تو یقیناﹰ مصالحت کا راستہ نکل سکتا ہے۔‘‘