1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی اور فوج تصادم کی راہ پر گامزن؟

14 ستمبر 2024

سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عمران خان کی پارٹی اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ملکی استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود فوج پر مبینہ سیاسی مداخلت کے حوالے سے غیر معمولی تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس وقت بظاہر پی ٹی آئی اور فوج دونوں ہی کی قیادت اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں
اس وقت بظاہر پی ٹی آئی اور فوج دونوں ہی کی قیادت اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

سابق وزیر اعظم اورپاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ملکی عدلیہ اور فوج سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع ہونے والی تازہ پوسٹ نے پہلے سے گرم ملکی سیاسی ماحول میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ عمران خان کے ایکس ہینڈل سے جمعے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں ملکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو ان کی مدت ملازمت میں ممکنہ توسیع دیے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے ان پر 'عدالتی نظام کو یرغمال بنانے‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اسی طرح اس بیان میں آرمی چیف کا نام لیے بغیر انہیں بھی ملکی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس ضمن میں عمران خان کی پوسٹ میں سابق فوجی آمر یحییٰ خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں  نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن کیا تھا اور اب عمران خان کے بقول ''یحییٰ خان پارٹ ٹو بھی یہی کام کر رہے ہیں اور ملکی ادارے تباہ کر رہے ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر دارالحکومت اسلام آباد میں ایک غیر معمولی ریلی کا انعقاد کیا تھاتصویر: Salahuddin/REUTERS

عمران خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

عمران خان کی اس پوسٹ کے بعد مقامی میڈیا میں باخبر اور باوثوق ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاع دی گئی کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے  ایف آئی اے نے لو گوں کو حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزامات پر عمران خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

اسی دوران آج بروز ہفتہ اسلام آباد میں جاری قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں بھی موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری  نے کہا کہ عمران خان نے اپنے بیان میں توہین عدالت کی ہے اور آرمی چیف پر سیاست میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ بیان عمران خان نے نہیں دیا تو پھر اس کی فوری طور پر وضاحت کی جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی اپنی سیاست چمکانے اور سیاسی ریلیف حاصل کرنے کے لیے ملکی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور فوج کے مابین کشیدگی ملکی استحکام کے لیے خطرناک، تجزیہ کار

اس سے قبل اسلام آباد پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے متعدد قانون سازوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بولے جانے کو بھی ملکی سیاست اور جمہوریت کے لیے ایک خطرناک پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت  اور ملک کی طاقت ور فوج کے درمیان تصادم سے پاکستان کے استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر (دائیں طرف) اور عمر ایوب خان تصویر: AAMIR QURESHI/AFP via Getty Image

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر دارالحکومت اسلام آباد میں ایک غیر معمولی ریلی کا انعقاد کیا تھا، جو عمران خان کے گزشتہ سال جیل بھیجے جانے کے بعد سے ان کی جماعت کی طرف سے اپنی سیاسی قوت کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔  اس ریلی کے کچھ ہی دیر بعد پولیس نے پارلیمنٹ کے احاطے کی بجلی کاٹ دی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افسران نے زبردستی اندر گھس کر وہاں پناہ لیے ہوئے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین نے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ معاملہ تیزی سے اپوزیشن اور فوج کے مابین تصادم کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جس طرح سے قانون سازوں کو گرفتار کیا گیا، اس سے تصادم کی سیاست مزید بڑھے گی اور اس سے ملک میں سیاسی بنیادوں پر مزید تقسیم پیدا ہو گی۔ یہ حالات خطرناک طور پر ایک غیر مستحکم صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

عمران خان کو دو سال قبل وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کیے جانے اور پھر مئی 2023 میں بدعنوانی کے الزام میں پہلی بار ان کی گرفتاری کے بعد سے فوج اور عمران خان کے حامیوں کے مابین کشیدگی عروج پر ہے۔ ان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی نے کئی دنوں تک پرتشدد مظاہرے کیے تھے اور فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد فوج کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا۔

تاہم تمام پابندیوں اور سختیوں کے باوجود عمران خان کی عوامی مقبولیت کم نہیں کی جا سکی اور سابق وزیر اعظم کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے باجود سب سے زیادہ نشستیں جیتی تھیں۔

عمران خان اور ان کی جماعت موجودہ مخلوط حکومت پر چوری شدہ مینڈیٹ کے زریعے اقتدار حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہیں تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت بنا کر ملکی اقتدار اس کے حوالے کر دیا گیا اور اس کے بعد فوج اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی۔ امریکہ میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں پاکستانی امور  کے ماہر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے، ''یہ اس لحاظ سے خاص طور پر ایک خطرناک تصادم ہے کہ عمران خان خلاف معمول فوج پر ذاتی نوعیت کی اورسخت تنقید کر رہے ہیں۔‘‘

عمران خان پہلے پہل تو 2018 میں فوجی حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئے لیکن طاقت ور فوجی جرنیلوں کے ساتھ جھگڑے کے بعد 2022 میں انہیں ہٹا دیا گیا۔ ان پر اسی سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

 ’حالات میں بہتری آتی دکھائی نہیں دے رہی‘

اس کے بعد عمران خان پر مخلتف مقدمات قائم کیے گئے۔ اب جبکہ ان کو تین مقدمات میں  ملنے والی سزاؤں کو اپیل کے بعد جزوی پر منسوخ کر دیا گیا ہے، وہ دیگر الزامات میں ابھی تک جیل میں ہی ہیں۔ عسکری امور کی تجزیہ کار اور مصنفہ عائشہ صدیقہ نے اے ایف پی کو بتایا، ''فوج لوگوں کے غصے کو ختم کرنے اور عمران خان کی حمایت کو کم کرنے سے قاصر ہے۔ حالات میں بہتری آتی دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘

مائیکل کوگل مین کا کہنا ہےکہ فوج نے خان اور ان کے اتحادیوں کو جس حکمت عملی کے تحت قید کر رکھا ہے، یہ ماضی میں تو کامیاب رہی ہو گی لیکن اب وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ کی دستیابی اور پاکستان میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مطلب ہے، ''فوج کے لیے سب کچھ اب اتنا آسان نہیں، جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔‘‘

امریکہ میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں پاکستانی امور  کے ماہر مائیکل کوگل مینتصویر: C. David Owen Hawxhurst / WWICS

کوگل مین کے بقول اب آن لائن''اختلافات کے ایسے گڑھ‘‘ ہیں، جہاں خان کے حامی فوج کے ساتھ اپنا مقابلہ جاری رکھتے ہیں۔ ملک میں جاری معاشی بحران نے مہنگائی میں اضافہ کر دیا ہے اور حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد کے حصول کے لیے بھاگ  دوڑ  کر رہی ہے۔ اسی دوران عسکریت پسند گروپوں نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، یعنی پاکستان کو اس وقت کئی محاذوں پر مسائل کا سامنا ہے۔

کوگل مین کے مطابق، ''اس وقت ملک میں جاری تصادم کا سب سے بڑا عملی نتیجہ یہ ہے کہ دیگر اہم اور فوری نوعیت کے پالیسی چیلنجزکو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف میں عمران خان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور عمران خان نے موجودہ مخلوط حکومت پر چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے کا الزام لگا رکھا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے سیاسی بقا کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہون نے اے ایف پی کو بتایا،  ''حکومت کی سیاسی بقا اس کے موجودہ اقدامات میں ہے، جبکہ پی ٹی آئی کی بقا کا انحصار اس کی طرف سے مزاحمت پر ہے۔‘‘

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان

02:18

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں