پی ٹی آئی، جے یو آئی کا اتحاد، حکومت مشکل میں؟
29 جنوری 2025
پی ٹی آئی حکومت کے خلاف نئے سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش میں ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی ممکنہ اتحادی جماعتیں مل کر بھی پارلیمنٹ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتیں البتہ عوامی بیانیے پراثر انداز ہو سکتی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت مخالف حکمت عملی ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں درپیش مشکلات کے بعد پی ٹی آئی اب دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ نئے اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں منگل کے روز پی ٹی آئی کے ایک وفد نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں حکومت کے خلاف ممکنہ بڑے اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منسوخ کر دیا
یہ ملاقات سیاسی اور عوامی حلقوں میں ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی ماضی میں ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف رہے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ممکنہ اتحاد عوامی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے، حکومت کی طاقت میں کمی لا سکتا ہے اورکیا حکومت کو ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنے سے روک سکتا ہے؟
ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک دوسرے کو کیا دے سکتے ہیں۔ کامران مرتضی جو کے جے یو آئی کے سینیئر رہنما اور سینیٹر ہیں کہتے ہیں،''فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی چاہتی کیا ہے کیونکہ انہوں نے پہل کی ہے تو وہ ہی بتائیں گے کہ ان کے ذہن میں کیا ہے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ جے یو آئی کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کے لیے کیا ہے اور پی ٹی آئی کس طرح ہمارے کام آ سکتی ہے۔‘‘
تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات
پی ٹی آئی اتحاد سے کیا حاصل کر سکتی ہے؟
سیاسی قائدین اور ماہر سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی جو اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا پارلیمنٹ میں تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور نہ ہی دونوں جماعتیں مل کرحکومت کو ہٹا سکتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دونوں جماعتیں مل کر عوامی بیانیے کی حد تک یا مل کر احتجاج کرنے کی کوئی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی شاید مولانا فضل الرحمان کی مذاکرات کرنے کی اہلیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
پاکستانی فوجی عدالت کی طرف سے مزید ساٹھ شہریوں کو قید کی سزائیں
ڈاکٹر زرقا جو کہ پی ٹی آئی کی رہنما ہیں کہتی ہیں ''میں ابھی یہ تو نہیں کہ سکتی کہ پارٹی لیڈرشپ کیا فیصلہ کرے گی لیکن میرے خیال سے مولانا فضل الرحمان ایک زیرک سیاستدان ہیں، جو ہمیشہ سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب کے حکومت اور اداروں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ وہ بظاہر ناممکن جگہ پر بھی جگہ بنا سکتے اور شاید ان کی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں مل کر بھی حکومت کو اپنی من مانی کرنے سے تونہیں روک سکتیں کیونکہ پارلیمنٹ میں نمبر گیم چلتی ہے اور حکومت چلانے کے لیے نمبران کے پاس پورے ہیں۔
جے یو آئی کو کیا ملے گا؟
جے یو آئی ف کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ کے مطابق پی ٹی آئی نے اب تک جو بھی اسٹریٹ پاورکا استعمال کیا ہے، وہ کسی خاطر خواہ نتیجے تک نہیں پہنچا۔ پی ٹی آئی شاید جے یو آئی کے عوامی سپورٹ سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پی ٹی آئی کی طرف سے خواہشات کے اظہار کے بعد کہ وہ کس قسم کی سپورٹ چاہتے ہیں پارٹی لیڈرشپ فیصلہ کرے گی کہ دونوں پارٹیاں کس حد تک اکٹھے چل سکتی ہیں۔‘‘
پاکستان: فوج اور پی ٹی آئی رہنماؤں میں ملاقات کا معمہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ لیکن پی ٹی آئی کو بھی کچھ دینا پڑے گا یہ اتحاد یقینا یک طرفہ تو نہیں ہو سکتا۔ ان کے بقول، ''پی ٹی آئی ان کی پارٹی کو اگر قائمہ کمیٹیوں میں زیادہ نمائندگی آفر کرے اور اس کے علاوہ اگر جوڈیشل کمیشن جو کہ ججز کی تعیناتی کے لیے قائم کیا گیا ہے میں نمائندگی دے توان کی جماعت بھی جس حد تک ممکن ہو مدد کرنے کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔‘‘
مولانا کے انکشافات کے مقاصد کیا ہیں؟
عوام کو بھی کوئی فائدہ ہو گا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری طور پر تو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن ممکنہ اتحاد سے حکومت پر عوامی دباؤ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ''پی ٹی آئی اس وقت حکومت کے خلاف ایک بڑا اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں محمود اچکزئی، شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر رہنما شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک عوامی سطح کا اتحاد ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ اس میں شامل زیادہ تر جماعتیں اور شخصیات پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں یا ان کے پاس زیادہ نشستیں نہیں ہیں اس لیے یہ براہ راست کوئی آئینی تبدیلی نہیں لا سکتا۔‘‘
پاکستانی مذہبی جماعتیں اور انتخابی سیاست میں ناکامی
اتحاد سے حکومت کو مشکلات بھی آ سکتی ہیں؟
ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کو اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور قانون سازی میں بھی کوئی مشکل درپیش آنے کے آثار نظر نہیں آتے لیکن بعض معاملات میں شاید کچھ مشکل پیش آئے۔ کامران مرتضی کہتے ہیں، ''صرف آئینی ترامیم کی حد تک حکومت کو ہمارے ووٹ کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اس کے علاوہ تو شاید عملی طور پر حکومت کے لیے دونوں جماعتیں مل کر بھی کوئی مشکل نہیں پیدا کر سکتیں۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ عوامی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے، ہم بھی سمجھتے ہیں کہ گذشتہ الیکشن دھاندلی سے بھرپور تھا اور مل کر دونوں جماعتیں عوام کو نئے الیکشن کے لیے حکومت کو مجبور کرنے پر غور کر سکتی ہیں۔‘‘