1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی مخصوص پارلیمانی نشستوں کی حق دار ہے، سپریم کورٹ

12 جولائی 2024

عدالتی فیصلے کے نتیجے میں حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں حاصل دو تہائی اکثریت ختم ہو گئی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عدالتی فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیا ہے۔

عدالتی فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستان میں سپریم کورٹ  نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  ہی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے آج جمعہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے معاملے پر سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کے  منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جمعے کو فیصلہ آنے کے موقع پر سپریم کورٹ کے ارد گرد سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھےتصویر: STR/REUTERS

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر  13 رکنی بینچ میں شامل ججوں کی رائے تاہم منقسم رہی اور آٹھ ججوں نے اس کی حمایت جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت پانچ ججوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ تاہم اس طرح کے فیصلے کو قانون کے تحت اکثریتی اور حتمی فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔

'حق اور سچ کی فتح‘

 تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے حامیوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیا ہے۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ اس فیصلے نے سپریم کورٹ کے قد میں اضافہ کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا، '' آئین اور قانون کی بالادستی اور اس کی عمل داری یقینی بنانا عدلیہ کا کام ہے۔ عوام کو حقیقی آزادی مل کر رہے گی اور یہی عمران خان کا عزم ہے۔ آج عمران خان کی جیت ہوئی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''الیکشن کمشین کو آئین سے انحراف کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی انصاف مکمل نہیں ہوا، جب تک فارم 47 کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے والوں سے چوری شدہ مینڈیٹ واپس نہیں لے لیا جاتا اس وقت تک انصاف کا عمل مکمل نہیں ہوگا۔‘‘

تحریک انصاف کے رہنما عدالتی فیصلے کو جیل میں قید اپنے سربراہ عمران خان کی فتح قرار دے رہے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا ہے؟

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے، انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے سے نہیں روک سکتا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ  الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ارکان کو آزاد ظاہر کر کے غلط اقدام کیا۔

فیصلے  کے مطابق سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں اور الیکشن کمیشن اپنے کاغذات نامزدگی میں خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کرنے والے امیدواروں کے تناسب سے  تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔

عدالت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہو گا اور الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کی فہرست دوبارہ مرتب کرے۔

خیال رہے کہ  الیکشن کمیشن نے 2024 کے عام انتخابات سے قبل انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حثیت سے انتحابات میں حصہ لیا تھا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انھوں نے ایک حکمت عملی کے طور پر  سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی تاکہ وہ اپنی جماعت کی مخصوص نشستوں کو محفوظ کر سکیں۔

تحریک انصاف کے رہنما اور وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے قانونی جنگ جیتی ہے لیکن ابھی سیاسی لڑائی جیتنی ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

 تاہم  الیکشن کمیشن  نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ بعد ازاں سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اس عدالت نے بھی الیکشن کیمشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ان فیصلوں کے بعد تحریک انصاف کے حصے میں آنے والی مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔

'جمہوریت کے لیے اچھا شگون‘ 

پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹوو ڈیویلپمنٹ (پلڈاٹ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ پاکستان میں جاری انتہائی سیاسی غیر یقینی کی صورت حال پر قابو پانے میں مدد گار ہو گا۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جب لوگ سیاسی طور پر دباؤ کا شکار ہوں اور انہیں کوئی ایسی صورت نظر نہ آرہی ہو جہاں ان کی بات سنی جائے تو یہ صورت حال سیاسی طورپر انتہائی خطرے کی علامت ہے اور تشدد کو ہوا دے سکتی ہے۔‘‘ 

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

22:32

This browser does not support the video element.

انہوں نے مزید کہا، ''اب عدالتی فیصلہ آنے کے بعد یہ بات اسٹیبلش ہو گئی ہے کہ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں اور لوگوں کے پاس ابھی بھی ایسے فورم موجودہ ہیں جہاں ان کی بات سنی جاتی ہے اور انہیں انصاف بھی ملتا ہے۔‘‘

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ بظاہر انتہائی دباؤ والے سیاسی ماحول میں اس طرح کا فیصلہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک اچھا شگون ہے اور اس سے لوگوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کے لیے مشکلات

عدالتی فیصلے کے مضمرات میں ایک اہم اور فوری معاملہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں حاصل دو تہائی اکثریت کا خاتمہ ہے۔ اسلام آباد میں جیو نیوز سے منسلک اور پارلیمانی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئیر صحافی آصف بشیر چوہدری کے مطابق حکمران اتحاد کو آئین میں ترمیم  کرنے کا جو اختیار  حاصل تھا اب وہ ختم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتےہوئے انہوں نے کہا، ''آئین میں بنیادی ترمیم کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے تین سو چھتیس کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کا مطلب دو سو چوبیس نشستیں ہیں جب کہ عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے حکمران اتحاد کے پاس ارکان کی تعداد دو سو چھبیس تھی، لیکن اب عدالتی فیصلے کے بعد یہ صورتحال بدل گئی ہے۔‘‘

قومی اسمبلی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جیسی بڑی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency

آصف بشیر کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کو چودہ جب کہ اس کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کو پانچ مخصوص نشستیں چھوڑنا پڑیں گی اس کا مطلب ہے کہ وہ فوری طور پر دو تہائی اکثریت سے محروم ہو جائیں گے۔

آصف بشیر کے مطابق اس فیصلے کے بعد صوبائی اسمبلیوں میں بھی پارٹی پوزیشن پر اثر پڑے گا تاہم ان کے بقول، ''کہیں بھی ایسی صورتحال نہیں پیدا ہو گی جو حکومت کی تبدیلی پر منتج ہو۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہو گا کہ اب حکومت کے لیے عام قانون سازی میں تو کوئی مشکل نہیں ہو گی لیکن اسے آئین میں ترمیم کے لیے اپوزیشن کے ارکان کی بھی ضرورت ہو گی۔ خیال رہے کہ جمعے کے عدالتی فیصلے کے بعد اپوزیشن کی جماعت جمعیت علماء اسلام کو بھی تین مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو واپس کرنا پڑیں گی۔ اس طرح عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو صرف قومی اسمبلی میں ہی تئیس مخصوص نشستیں حاصل ہوں گی۔

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

11:30

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں