1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی میں اختلافات: بشریٰ بی بی کا کنٹرول یا کچھ اور؟

عثمان چیمہ
29 نومبر 2024

ڈی چوک پر احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی ا‌ٓئی کی قیادت کی اہلیت اور وفاداری کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کو کارکنوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے متحد ہونا پڑا گا۔

Pakistans Ex-Premier Khan zu mehrjähriger Haft verurteilt
تصویر: Arif AliAFP

پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں ڈی چوک پر حالیہ احتجاج کے ناخوشگوار اختتام کے بعد پارٹی کی قیادت میں اختلافات دیکھنے میں آرہے ہیں اور چند رہنما تو کھلے عام اس احتجاج کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

 اس دوران پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ  بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کی اہم اتحادی جماعت سنی تحریک پاکستان کے سربراہ  صاحبزادہ حامد رضا، جو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کے رکن  بھی تھے، نے ان دونوں عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے احتجاج کی ناقص حکمت عملی اور ڈی چوک سے پیچھے ہٹنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں مستعفی رہنماؤں نے بہرحال یہ کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حمایت جاری رکھیں گے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پورتصویر: PPI via ZUMA Press Wire/picture alliance

 سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ وہ پارٹی کی قانونی ٹیم کی سربراہی جاری رکھیں گے، لیکن سیاسی معاملات سے دور رہیں گے۔ کچھ رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں کی تجاویز کے برخلاف لانگ مارچ کو ڈی چوک کی طرف دھکیل دیا۔ بیرسٹر گوہر بھی کہتے رہے ہیں کہ عمران خان سنگجانی میں احتجاج کرنے پر آمادہ تھے۔

 پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شیر افضل مروت البتہ ٹی وی ٹاک شوز میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ ڈی چوک جانے کا فیصلہ پارٹی کا  تھا۔

پی ٹی آئی کے بعض حلقوں کی جانب سے مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے آغاز پر علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی جانب سے احتجاج کی قیادت چھوڑ کر چلے جانےکے اقدام پر بھی بھر پور تنقید کی جا رہی ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بشریٰ بی بی نے گنڈا پور کے دباؤ میں آ کر احتجاجی مقام چھوڑا؟

 پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے اس تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ بشریٰ بی بی، جو پارٹی کے بانی عمران خان کی اہلیہ ہیں، نے کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے کہنے پر احتجاجی مقام نہیں چھوڑا۔

بشریٰ بی بی کی پارٹی معاملات میں مداخلت تنازع کی وجہ؟

مختلف مقدمات میں جیل سے ضمانت پر رہائی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی احتجاج کی قیاد ت کی۔ حکومتی رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد جب پی ٹی آئی کا احتجاجی قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوا تو اسے بشریٰ بی بی کی ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا اور یہاں تک کہ کئی مبصرین نے انہیں عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی سربراہی تک کے لیے موزوں قرار دیا۔

اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی کے کارکنوں سے دھواں دھار خطاب نے بھی انہیں سیاسی طور پر نمایاں کیا۔ انہوں نے کارکنوں کو یقین دلایا کہ وہ عمران خان کی رہائی کے بغیر یہا‌ں سے واپس نہیں لوٹیں گی، اور پھر انہوں نے کارکنوں سے بھی ایسا ہی کرنے کا حلف  لیا۔ تاہم پھر چھبیس نومبر کی رات حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ان کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے۔ کچھ سیاسی پنڈت تو  پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات  کو بھی بشریٰ بی بی کے سیاسی معاملات میں کردار کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے پارٹی نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

  تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جیل میں جانے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی اندرونی طور پر تنازعات کا شکار ہو گئی تھی۔ سیاسی  تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں، ''پارٹی میں کوئی ڈھانچہ نہیں ہے اور یہی پارٹی کے اندرونی اختلافات اور معاملات کی بدنظمی کی بڑی وجہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بشریٰ بی بی کا کردار بھی متنازع ہے،’’احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما اپنے ووٹرز کی شدید تنقید کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے انتخابی حلقوں میں شرمندگی اٹھا رہے ہیں۔‘‘

کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق بشریٰ  بی بی  نے احتجاج شروع ہونے سے قبل ایک پارٹی میٹنگ میں جماعت کے بعض رہنماؤں کی موجودگی میں ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے اور ان پر اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے پوری نہ کرنے کے الزامات بھی لگائے۔

سیاسی امور کی رپو‌ٹنگ کرنے والے صحافی اور پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک کا کہنا ہے، ’’بشریٰ بی بی پارٹی کے معاملات کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور پارٹی کے بعض رہنماؤں کے مطابق وہ  لوگوں پر غیر ضروری دباؤ ڈال رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر سلمان اکرم راجہ کو یہ تک کہنا پڑا کہ ہم پارٹی کے لوگ ہیں، کسی کے ذاتی ملازم نہیں۔‘‘

ارشد ملک کا مزید کہنا تھا کہ  پی ٹی آئی میں منصوبہ بندی کا فقدان عیاں ہے اور اس کی وجہ کسی متحد  قیادت کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا،''عمران خان جیل میں ہیں اور ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی بشریٰ بی بی کے کنٹرول میں ہے لہذا یہ جاننا بھی مشکل ہے کہ ان (عمران خان) کا مختلف معاملات پر کیا مؤقف ہے۔‘‘

حکومت ابھی تک ہر مرتبہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو بلا نتیجہ ختم کرانے میں کامیاب رہی ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

کیا حکومت پی ٹی آئی میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہو گئی؟

پی ٹی آئی کی پے درپے ناکام احتجاجوں کے سلسلے کو دیکھتے ہوئے بعض حلقے اسے حکومت کی بہتر سیاسی حکمت عملی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ البتہ تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کا کام ہے کہ وہ چالیں چلتے ہیں لیکن ایک سیاسی جماعت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی حکمت عملی میں کیا خامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت  پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر احتجاج سے نکلنے کا  موقع تو دے سکتی ہے لیکن وہ انہیں زبردستی ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

ضیغم خان کا کہنا تھا، ''ا پی ٹی آئی کی قیادت کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس جال میں کیوں پھنس رہی ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ احتجاج کی ناکامی  پی ٹی آئی کی قیادت پر اعتماد ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے اور جب اعتماد نہیں ہوگا، تو پارٹی آئے روز احتجاج بھی نہیں کر سکے گی۔

حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا ختم

02:44

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں