پی ٹی آئی کا قافلہ اپنی ’آخری منزل‘ ڈی چوک پہنچ پائے گا؟
25 نومبر 2024پاکستان تحریک انصاف کا کے پی سے آنے والا قافلہ پنجاب کی حدود میں داخل ہو چکا ہے، جہاں احتجاجی کارکنوں کو پولیس کی طرف سے شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ قافلے میں شامل متعدد شرکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہزارہ ڈویژن سے کچھ آگے موٹر وے کا علاقہ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کی وجہ سے میدان جنگ بنا رہا۔ تاہم ماضی کے برعکس اس مرتبہ عمران خان کے حامی اپنے قائد کی احتجاج کے لیے "فائنل کال" پر پیچھے ہٹتے نہیں دکھائی دے رہے۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے ہزارہ موٹر وے سے آگے ایک پل کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا اور مظاہرین پر اندھادھند شیلنگ بھی کی۔ اس صورتحال کی وجہ سے ابھی تک یہ حتمی طور پر واضح نہیں کہ یہ قافلہ کب اسلام آباد پہنچ سکے گا۔
قافلے میں شریک سعید خان نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قافلے کے شرکا نے گزشتہ رات گاڑیوں میں سو کر یا موٹر وے پر جاگ کر گزاری ہے۔ ان کے بقول رات کو اس علاقے میں درجہ حرارت تیرہ ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا تو اس پر بعض شرکا نے آگ جلا کر گرمائش کا بندوبست کیا۔ صبح خیبر پختونخوا سے سوزوکی وینز میں نمکین چاولوں (کابلی پلاؤ) کی دیگیں آئی تھیں جن سے ناشتہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین اپنے ساتھ گیس کے سلنڈر، کارپٹ اور چائے کا سامان بھی لے کر آئے ہیں اور جگہ جگہ رک کو اپنی مدد آپ کے تحت چائے یا قہوہ تیار کرکے ایک دوسرے کو پیش کیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی کے قافلے میں کتنے لوگ شامل؟
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے قافلے میں کل کتنے لوگ ہیں اس بارے میں پی ٹی آئی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد چالیس ہزار سے اوپر ہے لیکن حکومتی حلقے یہ تعداد تین ہزار بتارہے ہیں۔ غیر جانبدار شرکا کے مطابق یہ تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ کئی لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بہت سے لوگ واپس بھی جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے احتجاجی مظاہرین کی تعداد کل سے کم ہے۔
اتوار کی شب علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی مرکزی قافلے سے ہٹ کر برہان کی طرف چلے گئے تھے، جسے شرکا نے پسند نہیں کیا۔ قافلے کے شرکا کے بقول اس سفر میں تین مرتبہ علی امین گنڈا پور کے آگے نہ آنے کی وجہ سے تلخی کا ماحول پیدا ہوا۔ پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسف زئی کے بقول قافلے میں ایک موقعے پر جب شدید شیلنگ کی وجہ سے چند وزرا پیچھے ہٹنے لگے تو کارکنان نے انہیں آگے دھکیل دیا۔
اس وقت بھی فرنٹ فٹ پر کارکن ہی سرگرم ہیں۔ شیلنگ سے بچنے کے لئے کچھ احتجاجی کارکنوں کے پاس نمک کے پیکٹ اور بعض کے پاس پانی کی بوتلیں ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ گھاس پھوس کو آگ لگا کر بھی آنسو گیس کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’ہرجانب پولیس ہی پولیس‘
احتجاجی قافلے میں شریک قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان جمیل خان نے بتایا کہ قافلے کی رفتار اس لئے بھی بہت سست رکھی گئی ہے کہ ہم ہزارہ کی طرف سے آنے والے عمر ایوب کے قافلے کے آ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
جمیل خان نے بتایا کہ وہ کچھ فاصلے پر کھڑے ہزاروں مسلح پولیس اہلکاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب پولیس والے احتجاجی کارکنوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ احتجاجی کارکنوں کی ڈرون کیمروں سے تصاویر لی جا رہی ہیں۔ ابھی تک ہماری تو کوئی گرفتاری نہیں ہوئے ہے۔ البتہ رات ہونے والی ایک جھڑپ میں شیلنگ کرنے والے پولیس کے دو اہلکار احتجاجی کارکنوں نے پکڑ لیے تھے جبکہ ایک نے جان بچانے کے لئے نہر میں چھلانگ لگا دی تھی۔
حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، رہنما پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کے رہنما شوکت یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے احتجاج میں زیادہ لوگ شامل نہیں ہیں تو پھر حکومت نے پورا پاکستان کیوں بند کر دیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کو اپنی کامیابی کے بارے میں پر اعتماد کیوں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بہت کمزور ہو چکی ہے اس کے لیے طاقت کے زور پر پی ٹی آئی کو دبانا ممکن نہیں رہا ہے انہیں یقین ہے کہ ادارے عوام کی امنگوں کے مخالف نہیں جا سکیں گے۔ انہوں نے کہا، ''ہم سیاسی لوگ ہیں ہم اپنے مطالبات کے لئے صرف آواز اٹھا سکتے ہیں سو وہ کر رہے ہیں۔ ہمارا حکومت سے رابطہ صرف ٹی وی پروگراموں میں ہی ہوتا ہے ویسے کسی نے ہمارے ساتھ ابھی رابطہ نہیں کیا۔‘‘
پنجاب میں صورتحال بدستور کشیدہ
ادھر پنجاب کے بعض علاقوں میں کچھ دیر کے لیے روکاوٹیں ہٹا کر دوبارہ لگانی شروع کر دی گئی ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔موٹر ویز کے کئی سیکشنز آج بھی ٹریفک کے لیے بند ہیں، جنرل بس اسٹینڈ، بادامی باغ اور بند روڈ کے اڈے بھی نہیں کھل سکے ہیں۔
پنجاب کے مختلف علاقوں میں احتجاجی ورکرز کی گرفتاریوں اور ان پر مقدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبے بھر میں انٹرنیٹ انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے اور موبائل ڈیٹا کام نہیں کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد آنے والی پی ٹی آئی کے قافلے سے حکومت کو کوئی پریشانی نہیں۔ ان کے بقول علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔