پاکستان تحریک انصاف اپنا 26واں یوم تاسیس منا رہی ہے اور ملک کے کئی حلقوں میں اس بات پربحث ہو رہی ہے کہ اس جماعت نے گزشتہ 26 برسوں میں کیا حاصل کیا اور کیا گنوایا۔
اشتہار
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں کودنے والی تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاست میں بہت سارے مثبت رجحانات کو فروغ دیا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس جماعت کے سیاست میں آنے سے پاکستان کی سیاست میں بہت سارے منفی رجحانات آئے جس کے اثرات ملک کے طول و عرض پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
مثبت رجحانات
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے سیاست میں آنے کے بعد بہت سارے مثبت رجحانات کو فروغ دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' تحریک انصاف نے دو جماعتی نظام کو توڑا اور یہ ثابت کیا کہ سیاسی خانوادوں کے علاوہ بھی پاکستانی سیاست میں اپنی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس اور اشرافیہ کے کچھ حصوں کو سیاست میں ایک موثر انداز میں لے کر آئے، جن کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا کا بھر پور طاقت کے ساتھ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ عمران خان سیاست میں کئی نئے چہروں کو پارلیمنٹ میں لائے، جیسے کہ علی زیدی، علی محمد خان وغیرہ وغیرہ۔‘‘
حبیب اکرم کے مطابق پی ٹی آئی نے نچلے طبقات کے حوالے سے آواز بلند کی۔ ''ایک عام آدمی کو پولیس، ریونیو اور سرکاری افسران سے واسطہ پڑتا تھا۔ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں کم از کم یہ کوشش کی کہ پولیس اور دوسرے سرکاری اداروں کو بہتر کیا جائے۔ اس کے علاوہ احساس پروگرام ہو، بلا سود قرضے ہوں یا چھوٹے گھروں کی تعمیر ہو ان سارے اقدامات سے ایک عام آدمی کو فائدہ ہوا ہے۔‘‘
اشتہار
مقاصد حاصل نہیں کر سکی
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جب تحریک انصاف کو بنایا گیا تو اس وقت اس کے مقاصد اچھے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر ایسے عناصر حاوی ہوگئے جن کو روایتی سیاست دان کہا جاتا ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف سے وابستہ رہنے والے جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کی اس وقت روایتی سیاستدانوں کا اس جماعت پر اتنا زیادہ اثر و رسوخ نہیں تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن دو ہزار گیارہ کے جلسے کے بعد روایتی سیاستدانوں نے پارٹی جوائن کرنا شروع کی لیکن کیونکہ اس وقت عمران خان کارکنان کو سپورٹ کرتے تھے، تو ایک امید تھی کہ شاید وہ اپنا تسلط قائم نہیں کر پائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تسلط قائم ہوگیا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگ پیسے کے بل بوتے پر پارٹی پر چھا گئے۔‘‘
مشاورت کی کمی
وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس بہت کم ہی ہوتے تھے اور عموماﹰ فیصلے کور کمیٹی میں کر لیے جاتے تھے۔ ''پالیسی امور پر بحث نہیں ہوتی تھی اور پارٹی اگر زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اردگرد نااہل لوگوں کو رکھنا چاہتے ہیں جو صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔‘‘
وعدہ خلافی اور یوٹرنز
جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق عمران خان کے یوٹرنز اور وعدہ خلافی کی وجہ سے بھی پی ٹی آئی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ''نہ وہ لاکھوں نوکریاں دے سکے اور نہ کرڑوں گھر بنا سکے، جس سے لوگوں میں مایوسی پھیلی۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
پارٹی فنڈنگ
پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں اپنے کارکنان سے چندہ یا ماہانہ کی بیناد پر پیسے لے کر تنظیمی امور نمٹاتی ہیں لیکن جسٹس وجیہہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ایسا کوئی نظام نہیں تھا۔ ''ہاں یہ ضرور تھا کہ جب لوگ تنظیم کے اجلاس کے لیے باہر سے آتے تھے تو انہیں اپنی رہائش اور کرائے وغیرہ کے انتظامات خود کرنے پڑتے تھے۔‘‘
پارٹی اب بھی موثر ہے
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کیونکہ پی ٹی آئی کو غیر مرئی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ لہذا اب پارٹی میں کوئی دم خم نہیں رہا لیکن کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نہ صرف موثر ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ نگارسہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی اب بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ پہلے سے زیادہ ووٹ لینگے گو کہ انہیں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہوگی، ان کی ووٹوں کی تعداد بڑھے گی اور پنجاب میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہوگا۔‘‘
سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کا امریکہ مخالف بیانیہ چلے گا۔ ''لیکن اس میں شاید انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر شامل کرنے پڑیں گے۔‘‘
جسٹس وجیہہ کے مطابق یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت دوبارہ بڑھ رہی ہے۔ ''لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی موثر متبادل نہیں ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ لوگ ایک بار پھر عمران خان کے وعدے وعید پر اعتبار کرلیں گے۔‘‘
کھلی چھوٹ
تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے مستقبل کا فیصلہ اس بات سے مشروط ہے کہ انہیں کس قدر چھوٹ دی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر آئین شکنی کے الزام میں ان پر سختی کی جاتی ہے تو یقینا ان کی کارکردگی اور مقبولیت متاثر ہوگی لیکن اگر ان کو ایسے ہی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور یہ ملک کے طول و عرض پر جلسے جلوس کرتے ہیں تو پھر ان کی مقبولیت کا گراف اوپر ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں لوگ جذباتی انداز میں سوچتے ہیں۔‘‘
مختار باچا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پی میں اپنی مقبولیت شاید برقرار رکھ لے۔ ''لیکن میرے خیال میں انہیں دو تہائی اکثریت نہیں مل سکتی کیونکہ سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں ن لیگ انہیں بہت ٹف ٹائم دیں گی اور وہاں نشستیں حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘