1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات زیر بحث

1 فروری 2024

پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان کر دیا ہے، جو پانچ فروری کو ہوں گے۔ ملک کے کئی حلقوں میں یہ انتخابات زیر بحث ہیں۔

Pakistan Wahlen Imran Khan Poster
تصویر: AKRAM SHAHID/AFP

مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ موجودہ کریک ڈاؤن کے پیش نظر یہ انتخابات کس طرح ممکن ہوں گے اور یہ کہ پی ٹی آئی ان انٹرا پارٹی انتخابات سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

انٹرا پارٹی الیکشن

 پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا ہے جبکہ مختلف مقامات مختص کر دیے ہیں جہاں پر پارٹی کے رجسٹرڈ ممبران اپنی اپنی مرضی کے پینل یا چیئرمین کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال سکیں گے۔

رؤف حسن کو فیڈرل الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے۔ چیئرمین کے انتخاب کے لیے فیس 50 ہزار مقرر کی گئی ہے جبکہ پینل  الیکشن  کے لیے فیس ایک لاکھ ہے۔ پولنگ صبح 10 بجے سے شام چار بجے تک جاری رہے گی جبکہ ان انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی دو فروری تک پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹیریٹ یا ویب سائٹ سے حاصل کیے جا سکیں گے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ دو فروری رات 10 بجے تک ہوگی۔ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی صورت میں اعتراضات جمع کروانے کا وقت تین فروری رات 10 بجے تک ہوگا جبکہ انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لینے والے تمام فائنل پینلز کی فہرست چار فروری کی شام چار بجے ویب سائٹ پر شائع کی جائے گی۔ نتائج کا باضابطہ اعلان چھ فروری بروز منگل کیا جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے شیڈول کا بھی اعلان کر دیا ہے تصویر: Hussain Ali/ZUMA/picture alliance

کیا فائدہ ہے؟

پی ٹی آئی  کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد انتخابات کرا لیتی تو شاید اس کو انتخابی نشان مل جاتا۔ پی ٹی آئی کے لیگل ونگ کے ایک وکیل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ پارٹی اب یہ الیکشن کیوں کرا رہی ہے جب چاروں طرف کریک ڈاؤن چل رہا ہے۔ اس سے پارٹی کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور پارٹی کو اب انتخابی نشان بھی نہیں مل سکتا۔ اگر پارٹی کو انتخابات کرانے تھے تو فوری طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کرانے چاہیے تھے۔‘‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سابق سیکرٹیری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ بظاہر نہیں لگتا کہ ان انٹرا پارٹی انتخابات سے پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر وہ انتخابی نشان حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت مشکل ہے کیونکہ پانچ فروری کو اگر انتخابات ہو بھی گئے تو ان کو پھر یہ نتائج الیکشن کمیشن میں جمع کرانے پڑیں گے، جہاں پر ممکنہ طور پر اعتراضات آ جائیں گی۔ اگر اعتراضات آئے تو الیکشن کمیشن پابند ہوگا وہ ان کو سنے، تو انتخابی نشان تو کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘‘

سیاسی عمل میں شرکت کے بغیر حقوق نہیں ملیں گے، پاکستانی ٹرانس جینڈر

04:28

This browser does not support the video element.

انٹرا پارٹی انتخابات میں تاخیر

عمران خان کے متعمد خاص فیصل شیر جان نے اس تاخیر کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹی کے آئین میں انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے ایک مقرر وقت دیا ہے۔ الیکشن  کمیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارٹی میں یہ سوچ تھی کہ انتخابات کرائے جائیں لیکن اس کے حوالے سے ٹائم مقرر نہیں کر پارہے تھے۔ کیونکہ انتخابات بھی ہو رہے تھے اور امیدوار مصروف بھی تھے تو بہرحال یہ فیصلہ کیا گیا کہ انٹر پارٹی الیکشنز عام انتخابات سے پہلے کرائے جائیں۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے امیدوار پارٹی کی بجائے آزاد حیثیت میں لڑ رہے ہیتصویر: Abdul Majeed/AFP

فیصل شیر جان کے مطابق پارٹی کا انتخابی کالج 7 لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔ ''یہ سب سے بڑا کالج ہے، جس کے حوالے سے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ اور ای سی پی کے فیصلوں کی روشنی میں اسٹریٹیجی بنا رہے ہیں تاکہ انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات نہ ہو سکیں۔‘‘

مقاصد کیا ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ جو امیدوار پارٹی کی بجائے آزاد حیثیت میں لڑ رہے ہیں وہ الیکشن کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں۔  فیصل شیر جان کے مطابق الیکشن کے انعقاد کے بعد الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے 30 دن چاہیے ہوتے ہیں اور ''جب عام انتخابات  کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے تو تین دن کے اندر آزاد امیدواروں کو کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد ہمارے یہ امیدوار پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہمیں مخصوص نشستیں بھی مل جائیں گی۔‘‘

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان

02:37

This browser does not support the video element.

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو ایکسپوز کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی پہ شدید ترین کریک ڈاؤن ہے اور اس کو کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیاں کرنے نہیں دیا جا رہا ہے تو میرے خیال میں پانچ فروری کو انٹرا پارٹی انتخابات کرا کے پی ٹی آئی دنیا کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ حکومت ان کے لیے کتنی مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔‘‘ فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق یورپی اور دوسرے بین الاقوامی مبصرین ملک میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی خواتین امیدواروں کو بھی کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

 '' انٹرا پارٹی انتخابات کے دوران حکومت کریک ڈاون کرے گی اور پی ٹی آئی   بین الاقوامی مبصرین کو دکھائے گی کہ کس طرح ان کے انتخابات لڑنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔‘‘

تاہم انتخابی قوانین سے واقفیت رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے مخصوص نشستوں کا حصول بہت مشکل ہے۔ کنور دلشاد کے مطابق عام انتخابات سے پہلے نامزدگی جمع کراتے وقت ہی مخصوص نشستوں کے لیے بھی فارم جمع کرانے پڑتے ہیں۔ ''ان کی تاریخ جنوری میں گزر گئی ہے تو میرا خیال نہیں کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں مل سکیں گی۔‘‘

انٹرا پارٹی انتخابات میں مشکلات

پی ٹی آئی نے انتخابات کے حوالے سے مختلف مقامات مختص کر دیے ہیں لیکن کئی تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ کارکنوں کا ان مقامات پر پہنچنا بہت مشکل ہوگا۔ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے لیے پارٹی انتخابات کرانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اگر پی ٹی آئی کے ارکان خود ان مقامات پر یا مختلف دفاتر کی طرف جائیں گے تو ان کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا اور ممکنہ طور پہ چھاپے اور گرفتاریاں ہوں گی تو یہ ان کے لیے مشکل ہوگا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں