پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسمبلی سے استعفوں کی خبروں کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑگئی ہے کہ آیا اب پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں۔
اشتہار
کچھ کے خیال میں پی ٹی آئی کو کیونکہ اب ملک کے طاقت ور عناصر کی حمایت حاصل نہیں ہے اور اب وہ حکومت میں بھی نہیں ہے، اس لیے اس میں اتنا دم خم نہیں رہے گا کہ وہ مزاحمت کر سکے۔ ناقدین کے خیال میں اس صورت حال کو دیکھ کر میڈیا بھی شائد ان کا ساتھ نہ دے لیکن دوسری طرف ایسے بھی مبصرین ہیں، جن کے خیال میں عمران خان کی سیاسی وفات کی بات کرنا قبل از وقت ہے اور یہ کہ کپتان نہ صرف ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرینگے بلکہ ممکنہ طور پر ایک بار پھر مقبول عام رہنما بنیں گے۔
پی ٹی آئی مقابلے کے لیے تیار ہے
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ کل کے مظاہروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تحریک انصاف آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی ساری سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا مستقبل روشن ہے کیونکہ ہم نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور قومی مفادات کے لیے اقتدار کو ٹھکرایا ہے۔ اب ہم عوام کی عدالت میں جارہے ہیں اور وہاں کامیاب ہونگے۔‘‘
اقتدار سے باہر: لیکن بڑے مظاہرے
کئی ناقدین کا خیال تھا کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ اتوار کو پی ٹی آئی کی طرف سے ہونے والے مظاہروں نے کئی مبصرین کو حیران کردیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان احتجاجی پروگراموں سے پی ٹی آئی نے اپنی اہمیت ظاہر کردی ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ پارٹی کی طرف سے بڑے مظاہرے نہ صرف کے پی میں ہوئے، جہاں وہ اقتدار میں ہے، بلکہ بڑے اجتماعات میں سے ایک بڑا جلسہ کراچی میں ہوا جہاں وہ حزب اختلاف ہے۔ بالکل اسی طرح پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہے لیکن لاہور سمیت کئی شہروں میں پارٹی نے بڑے بڑے مظاہرے کیے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی ایک متحرک سیاسی قوت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان مظاہروں نے ان لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں، جو پی ٹی آئی کو ایک جماعت نہیں سمجھتے بلکہ روایتی سیاست دانوں کا ایک کلب سمجھتے ہیں۔ کل کے مظاہرے اراکین اسمبلی یا قومی اسمبلی کے اراکین نے منعقد نہیں کیے تھے بلکہ لوگ خود ہی سٹرکوں پر نکلے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی عوام میں سب سے مقبول جماعت ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی بھیانک غلطی
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے بارے میں پہلے ہی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ولی خان، فضل الرحمن، نواز شریف اور زرداری کے خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ''اور اب شہاز کو وزیر اعظم بنادیا گیا ہے جب کہ حمزہ وزارت اعلٰی کے امیدوار ہیں۔ بلاول کو بھی وزات مل سکتی ہے جب کہ فضل الرحمن کے رشتے داروں کو بھی اقتدار میں حصہ مل سکتا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی، جو وہ حزب اختلاف کے خلاف بیان کرتی ہے اور اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘
اشتہار
پی ٹی آئی کی سیاسی موت واقع ہوگئی ہے
تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہونے کے بعد اپنا موثر سیاسی وجود نہیں رکھ سکے گی۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار اور سیاسی مبصر ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ غیر مرئی قوتوں کی حمایت ختم ہونے کے بعد روایتی سیاست دان پی ٹی آئی کو چھوڑ دینگے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی کوئی منظم جماعت نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی کسی کریک ڈاؤن کا سامنا کیا ہے۔ مختلف جماعتوں کے موقع پرستوں نے اس میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب جب وہ یہ دیکھیں گے کہ طاقتور عناصر اس کی حمایت نہیں کررہے، تو وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے۔‘‘
پی ٹی آئی اور مزاحمت
سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر ذرا سی بھی سختی ہوئی تو یہ برداشت نہیں کر پائین گے۔ ''پی پی پی اور نون لیگ نے تو پھر بھی کچھ سختیاں برداشت کر لی تھیں لیکن پی ٹی آئی میں روایتی سیاست دانوں کے بعد ایک بڑی تعداد اپر مڈل کلاس کی ہے، جو کریک ڈاؤن جیسی چیزوں سے نہ آشنا ہے اور اسکو برداشت بھی نہیں کر سکتی۔ لہذا یہ لاکھ مزاحمت کے نعرے لگائیں لیکن جب مزاحمت کا وقت آئے گا تو یہ بھاگ کھڑے ہونگے۔‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔