پی ٹی ایم کو وارننگ: کیا معاملہ کشیدگی کی طرف جارہا ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
7 دسمبر 2018
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پشتون تحفظ موومنٹ کو وارننگ کے بعد پی ٹی ایم کے لہجے میں بھی تلخی آ گئی ہے، جس سے ماحول کے کشیدہ ہنے کا امکان ہے۔ پی ٹی ایم اور اس کے حامی اس پریس کانفرنس پر تنقید کر رہے ہیں۔
اشتہار
واضح رہے کہ کل بروز جمعرات ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے ایک پریس بریفنگ میں پی ٹی ایم کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے ریڈ لائن پار کی تو ریاست اپنے اختیارات استعمال کرے گی۔ آصف غفور کا کہنا تھا کہ فوج نے پی ٹی ایم کے سارے مطالبات تسیلم کیے ہیں۔
پی ٹی ایم کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس تحریک کے خلاف طاقت کا استعمال معاملات کو بگاڑ سکتا ہے۔ ممتاز تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں حالات کشیدگی کی طرف جارہے ہیں،’’آرمی کا کہنا ہے کہ اس نے لینڈ مائننگ کی ٹیموں میں اضافہ کر دیا ہے۔ چیک پوسٹیں بھی ختم کی ہیں اور گمشدہ افراد پر بھی وہ کام کر رہی ہے لیکن پی ٹی ایم ان اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ ان کے جلسوں میں اب بھی اشتعال انگیز نعرے لگتے ہیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو جو بات سب سے زیادہ ناگوار لگتی ہے وہ ہے پی ٹی ایم کے لیے افغان حکومت کی حمایت‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے ساتھ نوجوانوں کی اکثریت ہے، جو بہت جذباتی بھی ہیں، لہذا ان کے ساتھ معاملات کو بہت دانشمندانہ انداز میں حل کرنا ہوں گے،’’ذرا سی بھی بے احتیاطی معاملات کو بگاڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی معاملات کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی کوشش نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے خیال میں ریاست کو پی ٹی ایم کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے ورنہ حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی ایم کے حامی سیاست دان بھی ریاست کو ایسے ہی مشورے دے رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان: انسانوں کا سیلاب، مشکلات اور مصائب
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی شروع ہوتے ہی متاثرہ علاقوں سے لاکھوں انسانوں کی محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان متاثرین کی تاحال تعداد 6 لاکھ سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
وطن میں بے وطنی
چند سال پہلے وادیء سوات میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران بھی لاکھوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ اب شمالی وزیرستان جنگ کا میدان بنا ہوا ہے اور لوگ اپنا تھوڑا بہت مال اسباب سمیٹ کر اپنی جانیں بچا کر ایک انجانے مستقبل کی طرف نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ملک کے دیگر صوبوں کا رخ کرنے کی بجائے خیبر پختونخوا ہی کے مختلف حصوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
تا حد نظر گاڑیاں ہی گاڑیاں
شمالی وزیرستان سے بنّوں اور ملک کے دیگر وسطی علاقوں کی طرف آنے والی شاہراہوں پر آج کل اس طرح کے مناظر نظر آ رہے ہیں۔ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جانے والے لاکھوں افراد اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو لے کر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں۔ سخت گرمی میں یہ سفر بھی اُن کے لیے ایک بڑی مصیبت سے کم نہیں ہے جبکہ یہ بے یقینی اس کے علاوہ ہے کہ آگے جا کر ٹھکانہ کہاں ملے گا۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
کڑے امتحان کا وقت
شمالی وزیرستان کے باسی نقل و حمل کا ہر دستیاب ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنے آبائی علاقوں سے نکل رہے ہیں۔ ویگنوں، بسوں یا ٹرکوں پر جسے کہیں تھوڑی سی بھی جگہ ملتی ہے، وہ بیٹھ کر ایک اَن دیکھے مستقبل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے۔
تصویر: Danish Baber
ایک اَن دیکھے مستقبل کی جانب سفر
کل تک اپنے گھر کی چار دیواری میں رہنے والی یہ خواتین آج کھلے آسمان کے نیچے ہیں۔ جہاں کئی ایک شہری خیبر پختونخوا میں اپنے اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام کر سکیں گے، وہاں زیادہ تر آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر تیار کیے کیمپوں میں رہنا پڑے گا۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
ناقابل برداشت حالات
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے اور ایک لاکھ دَس ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں بچوں کو مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ گرمیوں میں شمالی علاقوں میں بھی درجہء حرارت اڑتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
سخت گرمی میں لمبی لمبی قطاریں
اگرچہ آئی ڈی پیز کے رجسٹریشن کے لیے حکومت نے خاطرخواہ انتظامات کر رکھے ہیں، لیکن متاثرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے ان کو کئی کئی روز تک سخت گرمی میں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ رجسٹریشن نہ ہونے کی صورت میں ان کو راشن اور دیگر سہولتیں نہیں مل سکتیں۔
تصویر: DW/D. Baber
’بس بیٹا، بنّوں آنے ہی والا ہے‘
آٹھ سالہ زینب کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ پیدل میرعلی سے بنوں تک کا سفر کیا، راستے میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے ان سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ ہر وقت اس کے والد اس کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتے تھے کہ بس ہم بنوں پہنچنے ہی والے ہیں، لیکن سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی راستے میں بہت بیمار ہو گیا تھا۔
تصویر: DW/D. Baber
کیمپوں میں طبی سہولیات
کیمپوں میں شدید گرمی کے موسم میں مختلف طرح کی وبائیں پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان کیمپوں میں جگہ جگہ ڈاکٹر موجود ہیں، جو بیمار آئی ڈی پیز کا معائنہ کرتے ہیں اور اُنہیں مناسب ادویات دیتے ہیں۔
تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images
کیمپوں میں بیماریاں آئی ڈی پیز کی منتظر
محکمہ صحت اور دوسرے فلاحی اداروں نے جگہ جگہ پر کیمپ لگائے ہیں، جن میں متاثرین کو فوری اور مفت علاج کی سہولت دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ذیادہ تر لوگ تھکاوٹ اور گرمی کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جبکہ بچوں کو اس صدمے کی کیفیت سے نکالنے کے لیے بہت زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
دن اور رات میلوں پیدل سفر
حاجی گل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کے ساتھ میلوں کا سفر پیدل کیا، راستے میں اس کا چار سالہ بیمار پوتا موت کی آغوش میں چلا گیا اورایک جوان بیٹا کرفیو کی وجہ سے میران شاہ میں پھنس چکا ہے۔ اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ تب ہی اپنے گاؤں جائے گا جب فوجی ان کے علاقے کو صاف کر دیں گے کیونکہ ان میں اس طرح باربار گھر چھوڑنے کی ہمت نہیں ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
عمر رسیدہ اور بیمار شہری
ڈوئچے ویلے کے نمائندے دانش بابر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ستر سالہ جمال وزیر کا کہنا تھا:’’کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے کے لیے مَیں نے پورا ایک دن اور پوری ایک رات پیدل سفر کیا ہے۔ میں بوڑھا اور بیمار ہوں۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، مَیں واپس وزیرستان جانا چاہوں گا۔‘‘
تصویر: Danish Baber
مدد کے لیے سرگرم ادارے
متاثرین کی امداد کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مدد میں مصروف ہیں۔ بنوں میں متاثرین میں راشن تقسیم کرنے کے لیے تین مراکز بنائے گئے ہیں، جہاں ہر متاثرہ خاندان کو 92 سے93 کلو تک اَشیائے ضرورت دی جاتی ہیں، جن میں آٹا، دالیں، چینی، گھی اور دوسری اشیائے خورد و نوش بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
فوجی جوان ہر محاذ پر سرگرم
آئی ڈی پیز کیمپ اور راشن پوائنٹس کے انتظامات کی ذمہ داری پاک فوج کو سونپی گئی ہے۔ فوج کے جوان متاثرین کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ سخت سکیورٹی کے انتظامات بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
متاثرین کا ہر چیز کے لیے امداد پر انحصار
وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے شمالی وزیرستان کے بے گھر ہو جانے والے افراد کی امداد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ راشن اور کھانے پینے کی دیگر اَشیاء کے حصول کے لیے متاثرین کو کئی کئی گھنٹے تک طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تمام تر امدادی سرگرمیاں ناکافی محسوس ہو رہی ہیں اور لوگوں کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images
14 تصاویر1 | 14
پی ٹی ایم کی حامی جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ دہشت گردوں کو وارننگ نہیں دیتے۔ یہ بھارت کو وارننگ نہیں دیتے، جس نے کنڑول لائن پر کئی افراد کو مار دیا ہے۔ ان کی وارننگ بے حال پختونوں کے لیے ہیں، جن کے ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے۔ میرے خیال میں یہ وارننگ پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ پی ٹی ایم ایک سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کو دیوار سے لگانے کے نتائج پاکستان کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگانے کی بات ہے تو کیا عمران خان نے فوج کے خلاف باتیں نہیں کیں۔ کیا ایک اور سیاست دان نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات نہیں کی۔ ان نعروں کو جواز بنا کر اگر کوئی کارروائی کرنی ہے، تو پھر صورتحال بہت خراب ہوجائے گی۔‘‘
واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد دعویٰ اور ردِ عوی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ ان کے مطالبات تین نہیں بلکہ زیادہ تھے اور وہ مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔ پی ٹی ایم سوات کے رہنما علی حسن نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات مان لیے گئے ہیں،’’ہمار ا پہلا مطالبہ تھا کہ نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو گرفتار کرنا تھا لیکن راؤ انوار آزادی سے گھوم رہا ہے۔ لینڈ مائننگ ابھی تک بچھی ہوئی ہیں اور انہیں صاف نہیں کیا گیا ہے۔ گمشدہ افراد کے حوالے سے ریاست بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو ہم کیسے مان لیں کہ ہمارے مطالبات پورے ہو چکے ہیں۔ ہم پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی طور پر اشتعال انگیزی کا شکار نہیں ہوں گے۔‘‘
’ميڈيا نے بہت ظلم کيا ہے اور ٹھيک کردار ادا نہيں کيا‘