1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم کے خلاف ایکشن لیا  جا سکتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

29 اپریل 2019

میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں کے تناظر میں کہا کہ  قبائلی عوام کے لیے سب کچھ کیا جائے گا لیکن وہ جو لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔

Pakistan Asif Ghafoor
تصویر: Imago/Xinhua

پاکستان فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں صحافیوں کے سامنے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کے سربراہ  نے کہا،’’ جب ہم تحریک لبیک پاکستان کے خلاف ایکشن لے چکے ہیں، تو اب  لوگ سوال کرتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا۔‘‘ آصف غفور نے کہا کہ سب سے پہلے انہوں نے پی ٹی ایم کے ساتھ بات چیت کی تھی اور انہیں آرمی چیف کی جانب سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آیا جائے۔ آصف غفور نے کہا،’’ آرمی چیف کے احکامات مانے جائیں گے۔ لوگوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔ پی ٹی ایم کے خلاف جو بھی ایکشن لیا جائے گا وہ قانون کے مطابق ہو گا۔‘‘

پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن محسن داوڑ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا،’’ میں محسن داوڑ سے ملا تھا۔ ان کے تین مطالبات تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں اب بھی مائنز اور بم موجود ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ صحیح تھا۔ ہم نے 48 ٹیمز کے ذریعے 45 فیصد علاقے کو کلیئر کر دیا۔ اس دوران پاکستان فوج کے 101 فوجی ہلاک ہوئے۔ پی ٹی ایم کا اگلا مطالبہ چیک پوسٹیں ختم کرنے کا تھا۔ پاکستانی فوج کے ہزاروں فوجی ان چیک پوسٹوں پر ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘ پی ٹی ایم کے تیسرے مطالبے کے بارے بات کرتے ہوئے آصف غفور نے کہا،’’ ان کا تیسرا مطالبہ گم شدہ افراد کا تھا۔ اب یہ فہرست کم ہو کر 2500 افراد کے بارے میں رہ گئی ہے، اور لاپتہ افراد کا کمیشن دن رات ان معاملات کو حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔‘‘

آصف غفور نے ارمان لودھی کے افغانستان میں جنازے اور پی ٹی ایم کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ کی جانب سے ملنے والی ممکنہ امداد کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے۔

وائس آف امریکا دیوا کی جانب سے شائع کی گئی ٹویٹ کے مطابق پی ٹی ایم تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان اشتعال انگیز ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

ب ج/ ع ق 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں