1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی ایم کے کیمپ کے خلاف کارروائی کی مذمت

فریداللہ خان، پشاور
3 اکتوبر 2024

پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے 11 اکتوبر کو شیڈول ’پشتون قومی جرگہ‘ کے مقام پر لگے کیمپ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کارروائی کی مذمت کی جا رہی ہے۔

Pakistan Quetta | PPP-Mitglieder und Aktivisten nehmen an einer öffentlichen Versammlung teil
تصویر: Banaras Khan/AFP

پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور قبائلی ضلع خیبر کے سنگم پر 11 اکتوبر کو ایک 'پشتون قومی جرگہ‘ منعقد کرنے کا منصوبہ ہے اور اس سلسلے میں مذکورہ مقام پر لگے کیمپ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں منگل کی شب ہٹا دیا۔ اس کارروائی کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی گئی اورآنسو گیس کے گولے بھی برسائے گئے جس سے مبینہ طور پر پی ٹی ایم کے متعدد لوگ متاثر ہوئے۔

سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ زخمی

پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے منظور پشتین پھر گرفتار

پشاور میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ وہ انتہائی پرامن تھے اوراس دوران انہیں کیمپ ہٹانے کا بھی کسی نہیں کہا تھا کہ اچانک پولیس نے چھاپہ مارا اورکیمپ کو تہس نس کر کے رکھ دیا، جبکہ بعد میں لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور فائرنگ بھی کی گئی جس سے متعدد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے بعد میں پھر سےخیمے لگا دیے ہیں تاہم انہیں ابھی بھی اس کی باقاعدہ اجازت نہیں دی گئی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کے کیمپ پر پولیس شیلنگ اور فائرنگ کے حوالے سے خبروں کی تردید کی گئی ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان کا موقف

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمدعلی سیف کے مطابق، ''پشتون تحفظ موومنٹ کے کیمپ آفس پر وفاقی حکومت کی ہدایت پر پولیس نے کارروائی کی، اور اس کارروائی کے لیے وفاقی حکومت نے پختونخوا کے چیف سیکرٹری کو خط لکھا ہے۔‘‘ بیرسٹر سیف کے مطابق اس خط میں کہا گیاکہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان نسلی منافرت اور ریاست مخالف بیانہ رکھتے ہیں، اسی بنا پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے مطابق، ''بنیادی طور پر یہ جرگہ خطے میں بدامنی کا راستہ روکنے کت لیے منعقد کیا جا رہا ہے، ہم ہرحال میں یہ جرگہ کر کے رہیں گے۔‘‘تصویر: Mohammad Usman/DW

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ منظور پشتین نے وزیراعلیٰ کے پی کے کو پشاور میں 11 اکتوبر کو پشتون قومی عدالت لگانے کے منصوبے سے آگاہ کیا تھا: ''پی ٹی ایم کے منظور پشتین نے پشاور میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے ملاقات کی تھی۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے تنازعات کے حل کے لیے جرگے تشکیل دینے اور ان کے پر امن حل تلاش کرنے کی تجویز پر وزیر اعلیٰ نے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا تھا۔‘‘

تاہم ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے شہری خاطراللہ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ قبائلی اضلاع صوبے میں ضم ہوچکے ہیں اور صوبے میں اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں، پاکستان میں عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے پشتون جرگہ کورٹ کا قیام غیر قانونی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ ضلع خیبر، وزیرستان، رزمک میں قائم پختون قومی عدالتوں کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے تشدد پر عدالتی حکم

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک شہری زاہد اللہ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی شکایت کی گئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے دورکنی بنچ نے صوبے کے چیف سیکرٹری، سیکرٹری ہوم اور پشاور پولیس کے سربراہ کو جمعہ کے روز عدالت میں طلب کرلیا ہے ساتھ ہی وفاقی حکومت سےبھی جواب طلب کیا ہے۔

پرامن اجتماع پر فائرنگ کی مذمت

 11اکتوبر کو پشتون تحفظ موومنٹ نے پشاور کے ریگی للمہ ٹاون کے وسیع علاقے میں تین روزہ اجتماع کا اعلان کیا ہے اس دوران انہوں نے بلوچستان سمیت پختونخوا بھر سے سیاسی قائدین کواس اجتماع میں شرکت کی دعوت دی، جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ تین دن تک جاری رہنے والے اس جرگے کا باقاعدہ شیڈول بھی جاری کیا گیا ہے۔

پاکستانی پشتون کیوں ناخوش ہیں؟

04:02

This browser does not support the video element.

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے مطابق، ''بنیادی طور پر یہ جرگہ خطے میں بدامنی کا راستہ روکنے کت لیے منعقد کیا جا رہا ہے، ہم ہرحال میں یہ جرگہ کر کے رہیں گے۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے پی ٹی ایم کے پر امن اجتماع پر فائرنگ اورشیلنگ کی مذمت کی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کا کہنا تھا، ''اس طرح کے اقدامات نوجوانوں کو تشدد کی جانب مائل کرنے کے مترادف ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان نوجوانوں کو بٹھا کر ان کے مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل بنانا چاہیے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں