1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ڈی ایم کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے والی ہے؟

6 جولائی 2023

سابق وزیر اعظم عمران خان کے مقابلے کے لیے بنائے گئے حکمران اتحاد (پی ڈی ایم) میں اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں الیکشن مہم کے دوران ان اختلافات میں مزید شدت آ سکتی ہے۔

تصویر: Tanvir Shahzad/DW

سیاسی مبصرین کے مطابق کوئی درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے مشترکہ حریف عمران خان کی پارٹی کو بڑی حد تک زیر کیا جا چکا ہے۔ اب سارے جھگڑے ''مال غنیمت‘‘ کی تقسیم پر ہو رہے ہیں۔ 

سینیئر تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق پی ڈی ایم میں بڑھنے والے اختلافات حکومتی اتحاد کے لیڈروں کے بیانات سے بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے، ''دونوں مستقبل میں اپنی اپنی حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔ دونوں اپنا وزیراعظم لانے کی متمنی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلاول یا زرداری کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپنی مقبولیت کے باعث اپنے آپ کو بڑی سیاسی پارٹی سمجھتے ہوئے وزارت عظمی پر اپنا حق جتاتی ہے۔‘‘

پیپلز پارٹی کے ایک بڑے رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی پارٹی کے تتر بتر ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے مخلص ووٹرز پیپلز پارٹی یا ن لیگ کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے، ''اس طرح الیکشن کا 'ٹرن اوور‘ بہت کم ہو گا اور الیکٹیبلز اور آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیتیں گے۔ ان کے ساتھ جوڑ توڑ کی مہارت زرداری کے پاس ہے، وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں، جو سندھ سے درجنوں سیٹیں یقینی طور پر حاصل کرکے ہی حمایت حاصل کرنے نکلیں گے۔‘‘

’’بلوچستان اور کے پی سے بھی پیپلز پارٹی سیٹیں جیت سکتی ہے‘‘تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ان کے بقول بلوچستان اور کے پی سے بھی پیپلز پارٹی سیٹیں جیت سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے مقابلے میں آصف زرداری کے ساتھ زیادہ بہتر محسوس کرے گی اس لیے پیپلز پارٹی اگلے انتخابات کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

مسلم لیگ ن کو اکثریت ملنے پر صدر کون ہو گا؟ حکومتی سیاسی اتحاد اس بارے میں بھی اتقاق رائے قائم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن دونوں اس سلسلے میں پیشگی یقین دہانی چاہتے ہیں جبکہ ن لیگ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 

سلمان عابد کے بقول ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کی خواہش ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے نگران سیٹ اپ میں ان کے زیادہ سے زیادہ حامی شامل کروائے جائیں اور صوبائی سیٹ اپ میں الیکشن سے پہلے اپنی مرضی کی تقرریاں کروائی جائیں، ''پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اہم لیڈروں کے مقابلے میں ن لیگ کے امیدوار نہ کھڑے کرنے کی متمنی ہے اس کے جواب میں ن لیگ نے سندھ سے دس سیٹوں کا مطالبہ کر دیا ہے، جسے پیپلز پارٹی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب کی وزارت اعلی کے بارے میں بھی دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات ہیں۔‘‘

چند دن پہلے جب سابق صدر آصف زرداری نے لاہور میں ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔ ان کے قیام کے دوران لاہور کی سڑکوں پر دو مرتبہ پیپلز پارٹی کے پرچم لگائے گئے لیکن انتظامیہ کچھ ہی دیر بعد پرچم ہٹوا دیے۔ آصف زرداری پی ٹی آئی سے نکلنے والے الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں لانے کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن پر اسرار رابطوں کے بعد وہ استحکام پاکستان پارٹی کی طرف چلے گئے، جو آج کل ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

یاد رہے نواز شریف کی سفارش سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ لگائے جانے والے نجم سیٹھی کو جس طرح پیپلز پارٹی نے عہدے سے ہٹوایا ہے اور بجٹ کے موقع پر سندھ کے سیلاب زدگان کے لیے جس طرح بلاول بھٹو نے دھمکا کر وفاقی حکومت سے فنڈز لیے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات پر بھی مسلم لیگ ن نے شدید ناگواری کا اظہار کیا ہے۔

تجزیہ کار جاوید فارووقی کے بقول مسلم لیگ ن کو خوف ہے کہ عوامی مقبولیت رکھنے والے عمران خان کو آنے والے دنوں میں ''سپیس‘‘ ملنے کی صورت میں کہیں پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن نہ جیت جائے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی قربت کو شک اور تشویش کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

 یہ تاثر بھی عام ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتیں بھی شدید پریشان ہیں۔ تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تاثر بالکل درست ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی جماعتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور دو بڑی جماعتیں ہی بندر بانٹ کرکے بڑے فیصلے خود سے کر رہی ہیں، ''ایم کیو ایم سندھ حکومت سے خوش نہیں۔ اے این پی خیبر پختون خواہ میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی حکومتی پالیسیوں پر نالاں ہیں۔ حال ہی میں جے یو آئی ف کے ایک وزیر نے اخبار میں اشتہار شائع کروا کر نام لیے بغیر اتحادی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔‘‘

ان سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل فیصلوں کا اختیار ان کے پاس نہیں, خالد رسولتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں ہی نہیں پارٹیوں کے اندر بھی اختلافات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور ان کے ساتھی ایک طرح سوچ رہے ہیں دوسری طرف نواز شریف اور مریم نواز کے حمایتی ہیں۔ حمزہ شہباز شریف جس طریقے سے کارنر کیے جا چکے ہیں ان کے لیے اس کو آسانی سے ہضم کرنا ممکن نہیں ہے۔

تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتیں کسی اشارے پر مجبوری کے تحت اکٹھی ہوئی تھیں۔ یہ ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک ان کے متفرق نظریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ''وہ کیسے ایک دوسرے کی الیکشن مہم میں حمایت کر سکیں گی۔‘‘ ان کے خیال میں الیکشن کے دوران ان اختلافات میں شدت آ سکتی ہے، ''ان کا دشمن ایک تھا وہ خوف کی وجہ سے اپنی بقا کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے اب ان کے پاس اکٹھا رہنے کا کوئی ٹھوس جواز بھی نہیں ہے۔ ‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل فیصلوں کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے، ''اس بار بھی الیکشن نامی پراسس کے ذریعے اسی طرح لوگ برسراقتدار آئیں گے، جس طرح ماضی میں آ تے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کو زبردستی الیکشن سے باہر رکھنے پر الیکشن کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے۔‘‘

تجزیہ کار جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بڑی چالاکی کے ساتھ  وہی وزارتیں لی تھیں، جن کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں، ''سارے اقتصادی فیصلے کرنے والی وزارتیں مسلم لیگ ن کے پاس تھیں، جن کو اب مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔  سلمان عابد کا اس پر یہ کہنا ہے کہ اسی لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے، ''وہ الیکشن مہم میں اپنی کارکردگی بیان کر کے اپنے آپ کو عوام کو ریلیف نہ دے سکنے والی حکومت کے ساتھ کھڑا کرنے سے گریز کریں گے۔‘‘

’پی ڈی ایم کا بیانیہ پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہے‘

05:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں