1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ڈی ایم کا احتجاج: عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش

عبدالستار، اسلام آباد
15 مئی 2023

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے آج ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اس طرح کا احتجاج ملکی تاریخ میں دوسری مرتبہ ہوا۔

Pakistan | Protest Islamabad
تصویر: Abdul Sattar/DW

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مظاہرے پر ملک کے کئی حلقوں میں تبصرے اور تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ اس احتجاج کو سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ انتشار پھیلانے کی کوشش لیکن حکومتی جماعتوں کا موقف ہے کہ احتجاج ان کا حق ہے۔

کیا دھرنے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو ہٹایا جا سکتا ہے؟

’مقبولیت کے زعم میں عمران خان زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں‘

 واضح رہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اس مظاہرے کا اعلان جمعہ کو کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی ایف سے مذاکرات کیے لیکن وہ احتجاج پر بضد رہے اور آج صبح دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کے باوجود پی ڈی ایم کے کارکنان، جن میں اکثریت جے یو آئی ایف کی تھی، سرینا چوک سے سپریم کورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔

اس موقع پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور مذہبی جماعت کے اراکین بعض مقامات پر رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاس پہنچ گئے۔ احتجاج میں مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دوسرے قائدین نے بھی شرکت کی۔

خیال کیاجاتا  ہے کہ پی ڈی ایم نے نہ صرف اس احتجاج کے ذریعے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی بلکہ آج پارلیمنٹ میں بھی خواجہ آصف، احسن اقبال اور اسد محمود سمیت اتحاد کے کئی رہنماؤں نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس عطا عمر بندیال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ صرف تین ججوں کی ایک مخصوص بینچ بنا دی جاتی ہے جب کہ احسن اقبال نے چیف جسٹس بندیال پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا۔

دباؤ کے ہتھکنڈے

پاکستان میں سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف کے دور حکومت میں ہی سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا اور جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف سپریم کورٹ کے ججوں نے بغاوت کردی تھی، جس کے بعد انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی ججوں پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ سابق جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے عدالت پر دباؤ تھا۔

قانونی حلقوں سے وابستہ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ مظاہرہ بھیسپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کا خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ تنازعات کو حل کرنے کا آخری ادارہ ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن یہاں مجمع جمع کر کے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، جو ملک کو انتشار کی طرف لے کر جا سکتا ہے۔‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق امریکہ میں الگور اور جارج بش کے درمیان بھی انتخابات کے مسئلے پر تنازعہ ہوا تھا۔ ''عدالت نے بش کے حق میں فیصلہ دیا لیکن کیا وہاں سپریم کورٹ پر چڑھائی کی گئی یا اس کے باہر احتجاج کیا گیا۔ اس طرح کا رویہ انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘

تصویر: Abdul Sattar/DW

عدلیہ کی آزادی پر حملہ

اس مظاہرے پر صرف وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے ہی تنقید نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایسی تنقید دوسرے حلقوں کی طرف سے بھی آرہی ہے۔ کچھ سیاست دان اس احتجاج کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب اور پی پی پی کے سابق سینیٹر سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اس طرح کا احتجاج کر کے ایک خطرناک روایت قائم کررہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ ریاست کے ایک اہم ستون پر حملہ ہے،  جس کی آزادی کی ضمانت خود آئین پاکستان نے دی ہے۔ حکومت صرف الیکشن سے بھاگنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال رہی ہے اور عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگا رہی ہے۔‘‘

عمران خان تفتیشی ایجنسی سے تعاون کریں، سپریم کورٹ

00:37

This browser does not support the video element.

سردار لطیف کھوسہ کے مطابق پی ڈی ایم کی حکومت دو آئینی احکامات سے روگردانی کر رہی ہے۔ ''ایک طرف یہ نوے دن میں انتخابات نہیں ہونے دے رہے، جو آئینی تقاضا ہے اور دوسری طرف یہ سپریم کورٹ کے حق تشریح کو چھیننے کی کوشش کررہے ہے، جو اسے آئین نےدیا ہے۔‘‘

عدلیہ پر دباؤ نہیں ڈال رہے

تاہم پی ڈی ایم اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال رہی ہے یا اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔ مظاہرہ میں موجود جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور فضل الرحمن کے مشیر  محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چیف جسٹس ہمارے زیر اثر نہیں بلکہ عمران خان کے زیر اثر ہیں اور اس مجرم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ایک سال سے اس کی طرف داری کر رہے ہیں۔‘‘

جلال الدین کا کہنا تھا کہ مظاہرے کا مقصد دباؤ ڈالنا نہیں بلکہ جمہوری حق کا استعمال کرنا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں