عالمی ادارہ محنت نے زور دیا ہے کہ بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیز کی جائیں اور آٹھ برسوں کے اندر اندر اس کا خاتمہ کیا جائے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا میں ہر دسواں بچہ چائلڈ لیبر کا شکار ہے۔
اشتہار
عالمی ادارہ محنت (ILO) کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائڈر نے منگل 14 نومبر کو خبردار کیا کہ دنیا بھر میں ہر دس میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر کا شکار ہے اور ان میں قریب نصف بچے خطرناک کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کی 28 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے نصف کوبالٹ نامی دھات کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ دھات بچے ہی کانوں سے نکالتے ہیں۔
ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رائڈر نے یہ بات تسلیم کی کہ 1990ء کی دہائی سے اب تک ایسے بچوں کی تعداد میں 100 ملین کی کمی واقع ہو چکی ہے جو چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تبدیلی کی اس شرح میں خاص طور پر حالیہ برسوں کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔ رائڈر کے مطابق، ’’ہم یہ پیشگوئی تو نہیں کر سکتے کہ روزگار کی منڈی مستقبل میں کیسے تبدیل ہو گی، لیکن ہمیں ایک چیز معلوم ہے: ہم مزید چائلڈ لیبر نہیں چاہتے اور نہ ہی جدید غلامی۔‘‘
عالمی ادارہ محنت کی طرف سے جاری کردہ تازہ اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں کم عمر ورکرز کی تعداد 152 ملین ہے جبکہ ان میں 25 ملین بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ منگل کے روز ارجنٹائن میں اس نوعیت کی ہونے والی چوتھی کانفرنس میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا ہدف 2025ء مقرر کیا گیا۔
آئی ایل اور کے سربراہ گائے رائڈر کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کی 28 بڑی کمپنیوں میں سے قریب نصف کوبالٹ نامی دھات استعمال کر رہی ہیں۔ بیٹریوں میں استعمال ہونے والی یہ دھات افریقی ملک کانگو میں کم عمر بچے کان کنی کے ذریعے نکالتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مائیکروسافٹ، رینو اور چین کی ہووا وائے کمپنی بھی چائلڈ لیبر سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم کے مطابق سات برس تک کی عمر کے بچے کوبالٹ کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں اور صحت داؤ پر لگا رہے ہیں۔ الیکٹرک کاروں کی بیٹریوں، اسمارٹ فونز اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کوبالٹ کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔