چائلڈ پورنوگرافی: حتمی چیلنج ہے کیا؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
کیرسٹن کنِپ مقبول ملک
10 جون 2018
انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے ادارے کو اس پر بڑی تشویش ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کیرسٹن کنِپ کی رائے میں ایک بڑی رکاوٹ جرمن ڈیٹا پرائیویسی قانون بھی ہے۔
اشتہار
ایسے جرائم کی شرح میں اضافہ بہت زیادہ اورا نتہائی تشویش ناک ہے۔ 2017ء میں بچوں سے متعلق فحش جنسی مواد کے کل قریب ساڑھے چھ ہزار مجرمانہ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے کے مطابق یہ شرح 2016ء کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ تھی۔
نوجوان لیکن قانونی طور پر نابالغ لڑکے لڑکیوں سے متعلق فحش مواد یا یوتھ پورنوگرافی کے کیسز کی شرح میں تو اضافہ اور بھی زیادہ رفتار سے ہوا ہے۔ گزشتہ برس ایسے واقعات کی مجموعی تعداد قریب 100 رہی، جو 2016ء کے مقابلے میں تقریباﹰ ایک چوتھائی زیادہ تھی۔
گئے وقتوں کا ایک محاورہ ہے: ’’چور موقع ملنے سے بنتا ہے۔‘‘ یہ منطق آج کے ڈیجیٹل دور پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ نے جہاں بہت سے لوگوں کی زندگی بہت آسان کر دی ہے، وہیں آن لائن جرائم اور ڈیجیٹل پورنوگرافی میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ چائلڈ پورنوگرافی بھی آن لائن پورنوگرافی کا ایک حصہ ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال کے نتیجے میں تیار کردہ مجرمانہ جنسی مواد، جسے چائلڈ پورنوگرافی کہتے ہیں، زیادہ تر ’ڈارک نیٹ‘ پر دستیاب ہوتا ہے، جس کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔ اس طرح کے مواد میں تصویریں بھی ہوتی ہیں اور ویڈیوز بھی۔ عالمی سطح پر یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ سائبر کرائمز کے ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بچوں سے متعلق جنسی مواد کی تشہیر اور تقسیم کا کام کرنے والی 80 ہزار غیر قانونی چائلڈ پورنوگرافک ویب سائٹس موجود ہیں۔
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
6 تصاویر1 | 6
جرمنی میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے کوشاں ماہرین کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ چائلڈ پورنوگرافی کی روک تھام کے سلسلے میں یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ایک بڑی رکاوٹ عام صارفین سے متعلق وہ ڈیٹا پرائیویسی قانون بھی ہے، جو تمام شہریوں کو ان کے نجی کوائف کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے مجرم بھی تو معاشرے ہی کے رکن ہوتے ہیں اور یوں ایک طرح سے عام صارفین بھی۔
جب تک ڈیٹا پرائیویسی قانون میں ضروری تبدیلیاں نہیں لائی جائیں گی، ان مجرموں کو پکڑنا بھی بہت مشکل ہو گا، جو بچوں سے متعلق فحش جنسی مواد کا آن لائن لین دین یا اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر یہی پورنوگرافی اب زیادہ شدید نوعیت کی تصویروں اور ویڈیوز کی شکل اختیار کر رہی ہے، کیونکہ ان جرائم کے مرتکب عناصر کے مابین بھی مقابلہ بہت سخت ہو چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے، چائلڈ پورنوگرافی تیار کرنے اور اس کی تشہیر و تقسیم کرنے والے کسی بھی طرح خود کو محفوظ محسوس نہ کریں۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیے جانے والے سارے ڈیٹا کو کسی بھی وقت ممکنہ نگرانی کے لیے انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے ادارے اپنے پاس علیحدہ سے بھی محفوظ رکھیں۔
امریکا میں اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ کوئی بھی انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والا ادارہ، جسے یہ شبہ ہو کہ اس کے کسی صارف نے غالباﹰ کوئی چائلڈ پورنوگرافک مواد اپ لوڈ کیا ہے، اس بات کا قانونی طور پر پابند ہوتا ہے کہ اس کی اطلاع پولیس کو دے۔ اس طریقہ کار کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ یوں انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے ادارے یا ISPs ایک طرح سے خود بھی انٹرنیٹ پولیس بن جاتے ہیں۔
جرمنی میں چائلڈ پورنوگرافی کے مسئلے کا حل اس طرح نکالا جا سکتا ہے کہ حکومت عام شہریوں یا صارفین کے نجی کوائف سے متعلق ڈیٹا پرائیویسی قانون میں ترمیم کرے۔ جرمنی میں اب یہ بنیادی بحث شروع کی جانا چاہیے کہ جب حقوق کے تحفظ کی سہولت غلط استعمال ہونے لگے، تو اس تحفظ کو متناسب کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی ہر کسی کو یہ حق تو ہے کہ اس کے نجی کوائف کا تحفظ کیا جائے، لیکن ساتھ ہی شہری، جسمانی حقوق اور شخصیت کے تحفظ کو بھی اولین ترجیح ملنی چاہیے۔ تو زیادہ اہم پرسنل ڈیٹا کا تحفظ ہوا یا بچوں سمیت کسی بھی عام شہری کی ذات اور شخصیت کا؟
دوسری طرف اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بچوں کے بچپن اور معصومیت کا ہر حال میں اور مکمل تحفظ کیا جانا چاہیے۔ اسی لیے جرمنی کے ڈیٹا پرائیویسی قانون میں اس طرح ترمیم کی جانا چاہیے کہ اس پرائیویسی کے محدود کیے جانے کے ممکنہ اجتماعی نقصانات کا قبل از وقت تدارک بھی ہو سکے اور ساتھ ہی جرمن معاشرے کے تمام بالغ شہری اور قانون ساز ادارے اپنا وہ فرض بھی پورا کر سکیں جو انہیں سونپی گئی ایک بہت بڑی ذمے داری ہے: بچوں اور بچوں کے بچپن کا تحفظ۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔