قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں کابل میں منعقد لویا جرگہ میں ہزاروں افغان چار سو افغان طالبان جنگجوؤں کی ممکنہ رہائی سے متعلق فیصلہ کریں گے۔
اشتہار
اس جرگے میں افغان صدر اشرف غنی، کابینہ کے اراکین ، سیاسی شخصیات سمیت تقریبا تین ہزار افراد شرکت کریں گے۔ طالبان قیدیوں کی رہائی سے متعلق اس فیصلے کو افغان امن عمل کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
افغان طالبان اور امریکا کے مابین پہلے سے ہی مذاکراتی سلسلہ جاری ہے، جس کے تحت افغان حکومت اب تک 4600 طالبان رہا کر چکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ اب باقی چار سو افغان طالبان کی رہائی افغان امن عمل کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔
افغان صد رکے مطابق ان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان نے افغان حکومت سے تین روز کے اندر اندر مذاکرات کا آغاز کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اور ان مذاکرات کا سب سے اہم پہلو جنگ بندی ہوگا۔ واضح رہے کہ اب تک طالبان براہ راست امریکا کے ساتھ ہی مذاکرات کر رہے تھے۔
لویا جرگہ کی اہمیت
افغانستان میں ماضی کی 'ہائی پیس کونسل‘ کو کچھ عرصہ قبل 'قومی مفاہمتی کونسل ‘ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عبداللہ عبداللہ اس مفاہمتی کونسل کی سربراہی کررہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو پشتو کے مدیر مسعود سیف اللہ کہتے ہیں ،'' یہ کونسل افغانستان میں امن مذاکراتی عمل کے لیے ذمہ دار ہے۔ اگر حکومت طالبان سے مذاکرات کرے گی تو حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کونسل طالبان سے بات چیت کرے گی۔ ‘‘
اس مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ ہی اس لویا جرگہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اس میں شریک افراد بحث و مباحثے کے بعد حکومت کو اپنا مشورہ دیں گے، جس کی بنیاد پر صدر غنی طالبان کی رہائی سے متعلق حتمی فیصلہ کریں گے۔‘‘
امریکا لویا جرگے کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے
امریکا کی خواہش ہے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے کیوں افغان طالبان کی جانب سے مذاکراتی عمل کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے جیلوں میں قید چار سو طالبان کی رہائی کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ اس مرحلے میں افغان حکومت کو بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے گا۔
مسعود سیف اللہ کہتے ہیں،''ماضی میں جرگے میں امریکا نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے فیصلہ سازی میں دخل اندازی کی ہے۔ اور ابھی بھی یہ ممکن ہے کہ امریکا جرگے کے اراکین سے بات کر کے طالبان کی رہائی کے حق میں فیصلہ دلوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔‘‘
امریکی قیادت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں امن عمل کے تحت امریکا اس ملک سے اپنے فوجیوں کا مکمل انخلاء کر پائے جو 2001ء سے افغانستان میں القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
افغان عوام کی خواہشات
مسعود سیف اللہ کہتے ہیں کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرے لیکن انہیں اس عمل میں شفاشت بھی چاہیے، ''عوام کو یہ واضح نہیں ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے نتیجے میں افغانستان میں کیسا نظام حکومت ہو گا؟ کیا طالبان خواتین کی تعلیم کے حامی ہوں گے؟ کیا وہ موسیقی پر پابندی عائد کریں گے ؟‘‘
کئی افغان شہری سوشل میڈیا پر اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مذاکراتی عمل کی شرائط کو واضح کیا جائے۔
افغان حکومت کی تحویل میں افغان طالبان قیدی قتل، منشیات کی اسمگلنگ اور اغوا جیسے سنگین جرائم میں قید ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کاکہنا ہے، '' ہم جانتے ہیں کہ طالبان کی رہائی ایک غیر مقبول فیصلہ ہے۔ لیکن یہ مشکل فیصلہ ایک بہت اہم سنگ میل کی طرف پہلا قدم ہے، ایک ایسا سنگ میل جو افغان عوام اور افغانستان کے اتحادی عرصہء دراز سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔