چار عشروں بعد ’نیپام گرل‘ کے زخم مندمل کرنے کی کوششیں
امجد علی31 دسمبر 2015
یہ تصویر دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔ ویت نام کے ایک گاؤں پر نیپام بم پھٹنے سے متاثرہ نو سالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے آگ لگنے کے بعد اتار دیے تھے۔ اب لیزر کی مدد سے باون سالہ ’پھن کِم پُھک‘ کا علاج کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
جنوبی ویت نام میں یہ واقعہ، جس میں کِم پُھک زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، آٹھ جون 1972ء کو پیش آیا تھا۔ فوٹوگرافر نِک اُٹ اس واقعے کا عینی شاہد تھا۔ اُس نے اس برہنہ، دہشت زدہ اور درد سے چیختی چلاتی کِم پھُک کی تصویر اُتاری، پھر اُس پر پانی ڈالا، اُس کے بدن کو ڈھانپا اور اپنی کار میں اُسے قریبی ہسپتال لے گیا۔
یہ تصویر جنگِ ویت نام کی ہولناکیوں کی علامت بن کر سامنے آئی اور اس نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اب کِم پُھک کو اُس واقعے میں آنے والے زخموں کے نشانات اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے تینتالیس سال ہو چکے ہیں۔
ایسی تصاویر، جنہوں نے دنیا کو دہلا دیا
شامی مہاجر ایلان کُردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی تصویر لاکھوں مہاجرین کے مصائب کی علامت بن گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسی ہی دیگر آٹھ تصویریں جو عالمی سیاست میں علامتی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
’نیپام گرل‘
جنوبی ویت نام کے ایک گاؤں میں ’نیپام بم‘ کے دھماکے کے بعد خوفزدہ اور سہمے ہوئے بچے۔ اس بم سے متاثر ہونے والی نوسالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے کیونکہ ان میں آگ لگ چکی تھی۔ یوں وہ زندہ بچنے میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
گردوغبار سے اٹی ہوئی خاتون
11 ستمبر2001ء کو جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے تو تباہی کا عالم دیکھنے میں آیا۔ یہ تصویر بھی اسی وقت لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مارسی بارڈر نامی ایک ایسی خاتون گرد و غبار میں ڈھکی نظر آ رہی ہے، جو اس تباہی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی۔ بارڈر چھبیس اگست 2015ء کو معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی۔ وہ اسی سانحے کی اثرات کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP
ٹینک کے سامنے
پانچ جون 1989ء کو یہ چینی نوجوان اچانک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے دارالحکومت بیجنگ میں ٹینکوں کے کاروان کو رکنا پڑ گیا تھا۔ یہ تصویر اُس دن سے صرف ایک روز پہلے لی گئی تھی، جب چینی فوج نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہروں کو سنگدلی سے کچل دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون تھا۔
تصویر: Reuters/A. Tsang
بینو اوہنے زورگ کی ہلاکت
دو جون 1967ء کو ایران کے شاہ کی جرمنی آمد پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی موقع پر جرمن طالب علم بینو اوہنے زورگ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طالب علم کی ہلاکت کے باعث ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں بائیں بازو کی تحریک میں انتہا پسندانہ رجحانات شامل ہو گئے تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تھا تو اوہنے زورگ کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
تصویر: AP
کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ابراہم زپروڈر اس صدارتی قافلے کی کوریج پر متعین تھے اور انہوں نے کینیڈی پر اس حملے کے لمحے کو بھی فلمبند کر لیا تھا۔ فریم 313 میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گولی کینیڈی کے سر میں لگی۔ تاہم ابراہم زپروڈر اس فریم کو شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میونخ میں قتل عام
میونخ میں 1972ء میں منعقد ہوئے اولمپک مقابلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کے گیارہ ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ بعدازاں فلسطینی دہشت گرد گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے انہیں ہلاک بھی کر دیا تھا۔ اس تاریخی تصویر میں ایک اغوا کار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: dapd
افغان لڑکی
اسٹیو مککری کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ 1985ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی پاکستان میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہی تھی لیکن یہ تصویر افغانستان میں سوویت قبضے اور دنیا بھر میں افغان مہاجرین کی زبوں حالی کی ایک علامت بن گئی تھی۔ بارہ سالہ اس بچی کی شناخت 2002ء تک پوشیدہ ہی رہی تھی۔ اس سے قبل شربت گلہ نامی اس لڑکی نے اپنا یہ پورٹریٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
کِم اور نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے چونسٹھ سالہ فوٹوگرافر اُٹ کے درمیان اب بھی قریبی روابط ہیں۔ اِس سال ستمبر میں اُٹ کِم کو اپنے ساتھ امریکی شہر میامی لے کر گیا تاکہ لیزر علاج کی مدد سے کِم پھُک کی جلی ہوئی جِلد کو پھر سے بہتر بنانے کی کوششیں کی جائیں۔
علاج کے پہلے سیشن کے بعد سے ہی مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے۔ اُٹ نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے بتایا: ’’مجھے پتہ چل گیا تھا کہ میرے فلم رول میں کیا کچھ قید ہو چکا ہے اور مجھے فوراً اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ مجھے یہ تصویر پوری دنیا کو دکھانی ہے۔ مَیں ہر شخص کو دکھانا چاہتا تھا کہ جنگ کتنی خوفناک ہوتی ہے۔‘‘
خود کِم بہت کم انٹرویوز دیتی ہے، اُٹ ہی اُس کے ترجمان کے فرائض انجام دیتا ہے۔ کِم نوّے کے عشرے میں اپنے شوہر کے ساتھ بھاگ کر کینیڈا چلی گئی تھی اور آج بھی وہیں آباد ہے۔ نیپام بم سے جلنے کے بعد کِم نے ایک سال کا عرصہ ہسپتال میں گزارا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے زخموں سے ہونے والی تکلیف کی عادی ہوتی چلی گئی تھی لیکن اب کہیں تینتالیس سال بعد آ کر یہ زخم پھر سے مندمل ہونے لگے ہیں۔
میامی ڈرماٹالوجی اینڈ لیزر انسٹیٹیوٹ چلانے والی ڈاکٹر جِل وائیبل کو یقین ہے کہ نہ صرف کِم کے زخموں کے نشانات کو اور اُسے ہونے والی تکلیف کو بڑی حد تک ختم کیا جا سکے گا بلکہ اُسے چلنے پھرنے میں بھی آئندہ زیادہ آسانی ہو گی۔
دراصل ڈاکٹر جِل وائیبل کا سسر ایک چرچ میں کِم کی درد بھری کہانی سن کر متاثر ہوا تھا۔ یوں ڈاکٹر اور اُس کی مریضہ آپس میں رابطے میں آئے۔ اب ڈاکٹر جِل وائیبل بھی، جس نے اپنے بچپن میں کِم کی مشہورِ زمانہ تصویر دیکھی تھی، اس خاتون کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئی ہے اور بلا معاوضہ اُس کا کامیاب علاج کر رہی ہے۔