چار ماہ کے دوران صرف 24 افغان خاندانوں کی وطن واپسی
فریداللہ خان، پشاور
10 مئی 2022
افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ رواں برس کے پہلے چار ماہ میں محض 24 خاندان ہی اقوام متحدہ کے رضاکارانہ واپسی کے پروگرام کے تحت واپس گئے۔
اشتہار
کل 100 افراد پر مشتمل 24 خاندان اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے تعاون سے رواں برس یکم جنوری سے 30 اپریل تک افغانستان واپس گئے ہیں۔ یو این ایچ سی آر نے رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والوں کو 250 ڈالر فی کس فراہم کیے ہیں۔ گزشتہ برس ان چار مہینوں کے دوران پاکستان سے یو این ایچ سی ار کے رضاکارانہ پروگرام کے تحت 308 افراد واپس افغانستان گئے تھے۔
نئے افغان باشندوں کی آمد
گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد جہاں ایک بڑی تعداد میں افغانوں نے یورپ، امریکہ ،جرمنی اور مڈل ایسٹ کے ممالک کا رخ کیا وہاں ایک بڑی تعداد میں پاکستان بھی پہنچے۔ یہاں آنے والے زیادہ تر افغان شروع میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹہرے تھے، جبکہ ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے راستے دیگر ممالک جانے کے لیے اسلام اباد میں ڈیرے ڈالے تھے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
زیادہ تر افغان باشندے پاک افغان سرحد طورخم ، چمن اور دیگر گزرگاہوں سے پاکستان پہنچے تھے۔ بڑی تعداد میں افغانوں کی آمد کے خدشات کی وجہ سے پاکستان نے کئی روز تک سرحدوں پر نگرانی سخت رکھی۔ تاہم اس دوران علاج معالجے اور مکمل دستاویزات رکھنے والے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ حالیہ دنوں میں عید منانے کے لیے افغانستان جانے والی کی ایک بڑی تعداد طورخم پاک افغان سرحد پر جمع ہوئے تاہم انتظامیہ کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سےاجازت ملنے پرانہیں افغانستان جانے دیا گیا۔
پاکستان میں رہائش پذیر افغان
پاکستان میں اس وقت تین ملین سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جن میں سے 14 لاکھ یو این ایچ سی ار کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ آٹھ لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ جاری کر رکھے ہیں۔ جبکہ 10 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر افغان خیبرپختونخوا، بلوچستان، اسلام آباد اور کراچی میں قیام پذیر ہیں۔
اشتہار
امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہ آ سکی
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جبکہ دوسری جانب غیر ملکی امدای اداروں نے افغانستان سے منہ موڑ لیا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں وہاں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ بدامنی میں اضافے اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ملک میں خوردنی اشیا کی قلت کا سامنا ہے۔
پشاور میں مقیم افغان باشندے عنایت اللہ نے واپس نہ جانے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''گزشتہ 15 سال سے پشاور میں کاروبار کر رہا ہوں۔ خواہش ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور ہم بھی اپنے وطن واپس جائیں لیکن ہر حکومت تبدیل ہونے کے بعد جاکر حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اب بھی کئی بار جاچکا ہوں لیکن حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہاں کاروبار یا زندگی گزارنے کے لیے کوئی روزگار کرسکیں۔‘‘
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو طالبان کی جانب سے سخت گیر پالسیویوں کا بھی سامنا ہے اور اب لوگوں کو حالات معمول پر آنے کی امید نہیں رہی۔
خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر افغان
خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہے۔ کئی بار تاجر تنظیموں نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا تاہم تکنیکی بنیاد پر ان مہاجرین کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا۔ پشاور میں زیادہ تر افغان ہوٹل، قیمتی پتھروں، قالین سازی، ٹرانسپورٹ، خشک میوہ جات، کپڑے، کراکری،کاسمیٹکس، الیکٹرانکس اور دیگر کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ پشاور کے صرافہ بازار میں پتھروں کے کاروبار سے وابستہ غنی الرحمان نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی سرمایہ دار افغانستان سے نکل گئے۔ جبکہ آج افغان روٹی کے لیے تندوروں کے سامنے گھنٹوں کھڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اب جانے کی خواہش بھی کم ہوتی جاری رہی ہے، ''ہمارے بچے اب پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہے۔‘‘
غنی الرحمان کے مطابق بعض افغانوں کہ وجہ سے یہاں مقیم لاکھوں افغانوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے 50 لاکھ افغانوں کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے اور اج تک کسی نے افغان مہاجرین کو واپس اپنے ملک بھیجھنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا ایک وقت میں افغانوں کو پاکستانی شہریت دینے کی بات چلی تو ہم بہت خوش تھے کیونکہ ہم اور ہمارے بچے یہاں پلے بڑھے ہیں اور یہاں تعلیم حاصل کی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق سال 2002ء سے سال 2022ء تک پاکستان اور ایران سے 5,272,158 افغان مہاجرین کو افغانستان واپسی میں معاونت کی ہے ہر جانے والے فرد کو 250 ڈالر کی امدا فراہم کی ہے۔
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
6 تصاویر1 | 6
بیرون ملک افغانوں کی طرف سے رقوم کی ترسیل
یورپ، امریکہ اور مڈل ایسٹ میں مقیم افغان ہر ماہ اپنے رشتہ داروں کو اخراجات کی مد میں لاکھو ڈالر ارسال کرتے ہیں۔ زیادہ تر افغان بینکوں کے ذریعے یہ رقوم ارسال کرتے ہیں جو پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی بلز کی مد میں بھی افغان باشندے لاکھوں کا ٹیکس اور سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔