جسے ہی نیلےرنگ کی بس کا دروازہ کھلا، درجنوں بچے بس میں رکھی کئی کتابوں میں سے اپنی من پسند کتاب ڈھونڈنے کے لیے بے تابی سے دوڑتے ہیں۔ یہ منظر نظر آتا ہے کابل کی پہلی موبائل لائبریری چار مغز کے باہر۔
اشتہار
افغانستان کے دارالحکومت کی گرد آلود سڑکوں پردھول اڑاتی کتابوں سے بھری یہ بس، یہاں اپنی نوعیت کی پہلی موبائل لائبریری ہے جو سڑکوں پر نظر آنے والے بچوں کو کتابوں تک بلا معاوضہ رسائی دیتی ہے۔ یہ لائبریری ان بچوں کے لیے ایک محفوظ سایہ بھی فراہم کرتی ہے جو حالات کے باعث صرف گھروں تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔
چار مغز لائبریری سے روزآنہ قریب تین سو بچے فائدہ اٹھاتے ہیں جو یہاں کے حالات کے پیش نظر ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس بس کو ایک سرکاری بس کمپنی سے کرائے پر حاصل کیا گیا ہے اور اسے کسی حکومتی عمارت، مین روڈ یا پُر ہجوم مقامات سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔
روایتی لائبریریوں میں عموماﹰ آپس میں بات کرنے کی ممانعت ہوتی ہے لیکن چار مغز میں باتوں کی مستقلاﹰ ہلکی سی آوازیں سنائی دیتی ہے۔کچھ بچے یہاں فرش پر بچھے کارپٹ پر بیٹھے ہیں توکچھ یہاں رکھی گئی کرسیوں پر افغان پبلشرز کی عطیہ کردہ کتابیں پڑھنے میں مگن ہوتے ہیں۔ یہاں ایسی چھ سو کتابیں موجود ہیں جو بچوں کو متوجہ رکھتی ہیں۔ ایک تیرہ سالہ بچی زہرہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ہفتے میں ایک بار یہ کتابیں پڑھنے ضرور آتی ہے، ’’آج میں اپنی صحت مزید بہتر کرنے پر لکھی گئی ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ میں یہ پڑھ رہی ہوں کہ صحتمند رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا کھانا چاہیے۔ جب میں گھر جاؤں گی تو یہ کہانیاں اپنے بھائی بہنوں کو سناؤں گی۔ ‘‘
اس لائبریری بس کو رواں برس فروری میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ فرشتہ کریم نے شروع کیا اور خود کو افغانستان کے بچوں کو پڑھنے کا موقع دینے کے لیے وقف کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں بچوں کی لائبریریوں تک رسائی نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اسکول میں تو بیٹھنے کے لیے کرسیاں تک نہیں تھیں اور ہم فرش پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔‘‘
اس سال کے اعداد وشمار کے مطابق آٹھ ملین بچے اسکولوں میں داخل ہیں۔ تاہم اب بھی اسکول جانے کی عمر کے 3.5 ملین بچے اسکولوں کی بندش، خانہ جنگی اور غربت کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان حالات میں فرشتہ کریم جانتی ہیں کہ ان کی یہ بس لائبریری خواندگی میں اضافہ تو نہیں کر سکے گی تاہم یہ ضرور ہے کہ جو کچھ حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ع ف / ا ب ا (اے ایف پی)
قدیم اور جدید، دنیا کے سب سے خوب صورت کتب خانے
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ کہیں گنبدوں اور کہیں ناقابل فہم اڑن کھٹولوں کی اشکال جیسے یہ کتب خانے آج کتابوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
راکھ سے اٹھتے ہوئے
شہزادی آنا امالیا لائبریری وائمر کا یہ نام 1991 میں رکھا گیا۔ اس سے قبل تین سو سال تک اس کا نام شاہی لائبریری تھا۔ اس کے مشہور زمانہ روکوکو ہال نامی عمارت آتش زدگی کا شکار ہو کر خاکستر ہو گئی تھی۔ 24 اکتوبر 2007 کو تاہم اسے تعمیر نو اور مرمت کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
فٹ بال کا میدان یا کتب خانہ؟
فکر مت کیجیے، اگر آپ کے پاس اسٹوڈنٹ کارڈ نہیں ہے، تب بھی ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی یہ لائبریری، آپ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ عمارت کی ڈھلوانی طرز پر بنائی گئی چھت پر گھاس اگائی گئی ہے۔ 42 میٹر بلند میں چار منزلیں ہیں اور ہر منزل کتابوں سے بھری ہے۔
تصویر: Nicholas Kane/Arcaid/picture alliance
گلِ لالہ کی لکڑی اور آبنوس
برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ نے پرتگال کے کوئنبرا کے علاقہ میں بِبلوٹیکا ژوآنینا کو سن 2013 میں دنیا کی سب سے بہترین لائبریریوں کی فہرست میں رکھا تھا۔ یہ کتب خانہ پرتگال کے بادشاہ جان پنجم کے نام سے موسوم ہے، جنہوں نے اسے تعمیر کیا۔ اس لائبریری میں کتابوں کے تمام شیلف گلِ لالہ اور آبنوس کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/H. Champollion
روایت اور جدت کا امتزاج
دو ہزار برس قبل آگ کی نذر ہو جانے سے قبل اسکندریہ کا یہ کتب خانہ پوری دنیا میں مشہور تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کتب خانے میں پوری انسانیت کی مجموعی دانش دھری ہے۔ اسکندریہ کی یہ نئی لائبریری، اسی نسبت سے سن 2002ء میں عوام کے لیے کھولی گئی۔ اس پر دو سو بیس ملین ڈالر لاگت آئی۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
حنوط شدہ لاشوں کے درمیان
سینٹ گالیں، سوئٹزرلینڈ کی اس ایبے لائبریری میں چند حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں، جو قریب تیرہ سو برس پرانی ہیں۔ یہاں آنے والے کتابوں کے بیچوں بیچ ان کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ یورپ کی قدیم ترین نقشے والی عمارات میں سے ایک ہے۔ بوشیرزال یا بک ہال کو یونیسکو نے سن 1983 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Stuart Dee/robertharding
صدر نے بچایا
کانگریس کی اس لائبریری ضرور جائیے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس لائبریری کی بنیاد 1800 میں رکھی گئی تھی مگر صرف 14 برس بعد اسے برطانیہ نے جلا ڈالا تھا۔ تھومس جیفرسن، جو امریکا کے تیسرے صدر تھے، نے اپنی ذاتی ملکیت کی کوئی ساڑھے چھ ہزار کتب فروخت کر کے اس کے لیے 24 ہزار ڈالر کا سرمایہ جمع کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/H. Khandani
خیالِ بلوط
ڈبلن میں دو منزلہ عمارت اولڈ ٹرنیٹی کالج کی 64 میٹر لمبے اور 12 میٹر چوڑے کمرے پر مشتمل لائبریری ہے۔ یہ جگہ کبھی اتنی دل کش نہیں تھی، جیسی اب ہے۔ سن 1885 میں اس کی پلاسٹر والی چھت ہٹا کر بلوچ کی لکڑی سے اسے دوبارہ آراستہ کیا گیا۔
تصویر: Imago/imagebroker
چین میں سب کچھ بڑا ہے
چین کی نیشنل لائبریری میں تین کروڑ کتابیں ہیں۔ چین کا یہ کتب خانہ دنیا کے سات سب سے بڑے کتاب گھروں میں سے ایک ہے۔ اسے 1809 میں مرکزی کتب خانے کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے بیجنگ لائبریری رکھ دیا گیا۔