چار ڈالر کا اسمارٹ فون، ورکرز کے لیے خطرے کی گھنٹی
1 جولائی 2016مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑنے والوں کو خدشہ ہے کہ دنیا کی اس تیز ترین رفتار سے پھیلتی اسمارٹ فون مارکیٹ میں سستے اسمارٹ فونز کی یہ دوڑ مزدوروں کے حقوق مزید سلب کرنے کا باعث بنے گی۔
بھارت میں ’رِنگنگ بیل‘ کمپنی کا فریڈم 251 نامی اسمارٹ فون رواں برس فروری میں متعارف کرایا گیا تھا جس کی قیمت محض 251 بھارتی روپے ہے۔ یہ رقم چار امریکی ڈالرز یا پاکستانی روپوں میں قریب 420 روپے بنتی ہے۔
اس اسمارٹ فون کو خریدنے کے لیے اس قدر زیادہ آن لائن آرڈرز آئے کہ کمپنی کی ویب سائٹ کریش ہو گئی۔ اس فون کو دنیا کا سستا ترین اسمارٹ فون کہا جا رہا ہے۔
جمعرات 30 جون کو اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو موہِت گوئیل نے بتایا کہ دو لاکھ ہینڈ سیٹ آئندہ ہفتے خریداروں کو روانہ کر دیے جائیں گے۔ گوئیل کے مطابق رنگنگ بیل اپنے ورکرز کو مناسب مشاہرہ ادا کرتی ہے اور اس کمپنی کے نسبتاﹰ مہنگے ماڈلز دراصل چار ڈالر والے اسمارٹ فون کی لاگت کو پورا کرنے میں مدد کریں گے۔
گوئیل نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ہمارا خواب یہ ہے کہ موبائل فون کو ایسے کروڑوں غریب بھارتیوں کی دسترس میں لایا جائے جو ابھی تک اسے خرید نہیں سکتے۔‘‘
بھارت نے گزشتہ برس 103ملین ہینڈ سیٹ فروخت کیے تھے۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 29 فیصد زائد ہے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت بھارت میں ہر دس میں سے محض ایک فرد موبائل فون رکھتا ہے۔ اسی باعث بھارتی مارکیٹ اس حوالے سے زبردست امکانات رکھتی ہے، خاص طور پر ایسے سیٹوں کے حوالے سے جو بہت کم قیمت ہیں۔
اس وقت بھارتی مارکیٹ میں کئی مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں کم قیمت اسمارٹ فون فروخت کر رہی ہیں جن میں سے بعض کی قیمت 25 ڈالرز تک بھی ہے۔
تاہم مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ لاگت کو کم رکھنے کے لیے مینوفیکچررز نہ صرف ورکرز کو کم مشاہرے پر رکھتے ہیں بلکہ کسی زائد مزدوری کے بغیر ان سے اوور ٹائم بھی لیا جاتا ہے۔
مزدوروں کے حقوق کے لیے مہم چلانے والے ایک گروپ سیویدیپ Cividep کے جنرل سیکرٹری گوپی ناتھ پاراکونی کے مطابق، ’’ہمارے ملک میں موجود قوانین اس حد تک مضبوط نہیں ہیں کہ وہ الیکٹرانک انڈسٹری میں کام کرنے والے ورکرز کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔‘‘
ہانگ کانگ میں قائم لیبر رائٹس گروپ ’ایشیا مانیٹر ریسورس سنٹر‘ کی طرف سے 2013ء میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی الیکٹرانک انڈسٹری میں کام کرنے کے حالات ’بد ترین میں سے ایک ہیں‘۔
نئی دہلی میں قائم ’سنٹر فار ریسپانسیبل بزنس‘ سے تعلق رکھنے والے رافیل یوزے Raphel Jose کہتے ہیں، ’’کمپنیاں یہ کہنا پسند کرتی ہیں کہ سستے فون اور کمپیوٹر دراصل جمہوریت اور ڈیجیٹل خودمختاری کو بڑھاتے ہیں۔۔۔ مگر ہمیں یہ سوال کرنا چاہیے کہ ان سستی ڈیوائسز کی اصل قیمت کون ادا کر رہا ہے؟ سستی اشیاء ہمیں اچھی نہیں ہوتیں۔‘‘