چار ہزار برس پرانا مجسمہ ترکی کو واپس
30 جولائی 2011تاریخ سے دلچسپی رکھنے شوقین لوگ قدیم نوادرات کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے عجائب گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور ٹکٹوں کی مد میں ایسے عجائب گھر سالانہ کرڑوں اربوں کماتے ہیں۔ یورپ کا دل کہلانے والے ملک جرمنی میں ویسے تو ہزاروں ہی عجائب گھر ہیں مگر ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ہزارہا برس پرانی نوادرات کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی نوادرات میں قریب چار ہزار برس پرانا ایک مجسمہ بھی تھا جو 1907ء میں ترکی میں کھدائی کے دوران دریافت ہوا۔ برلن کے ایک میوزیم نے اب یہ مجسمہ ترکی کو واپس کر دیا ہے۔
انسانی سر اور شیر کے دھڑ والے دو مجسموں کی باقیات اصل میں 1907ء میں ترکی میں کھدائی کے دوران ملی تھیں۔ جو قدیم ہتیتی سلطنت کے دارالحکومت ہاتوسا میں کی گئی۔ یہ سلطنت اس وقت کے ترقی یافتہ اناطولیہ کے لوگوں کی تھی۔ تانبے کا عہد کہلانے والے دور کی یہ سلطنت چودھویں صدی قبل مسیح میں اپنے بام عروج پر تھی۔
ترکی کے دیگر قدیم مقامات کی طرح ہاتوسا میں بھی کھدائی دراصل جرمن ماہرین آثار قدیمہ کے تعاون سے کی گئی تھی۔ بلکہ آج بھی جرمن ماہرین ترکی سمیت مختلف ملکوں میں تاریخی مقامات کی کھدائی میں تعاون کر رہے ہیں۔
ٹکڑوں میں تقسیم ان دو مجسموں کو اپنی شکل میں واپس لانے کے لیے 1915ء میں جرمنی لایا گیا تھا۔ ان میں سے ایک مجسمہ 1924ء میں ہی واپس ترکی بھیج دیا گیا۔ جبکہ جرمنی نے واپس کیے گئے مجمسے کی بنائی گئی نقل اور دوسرے اصل مجسمے کو 1934ء میں برلن کے پرگامون میوزیم میں نمائش کے لیے رکھ دیا۔ ان مجسموں کو دیکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں لوگ اس میوزیم میں آتے تھے۔
ترکی نے ابھی رواں برس کے آغاز میں دھمکی دی تھی کہ اگر یہ مجسمہ واپس نہ کیا گیا تو وہ جرمن ماہرین کے ترکی میں جاری 105 سالہ پراجیکٹ کو روک کر اس کے ماہرین آثار قدیمہ کو واپس بھیج دے گا۔
ایسے ہی متنازعہ نوادرات میں سے ایک برلن کے ہی ایک عجائب گھر میں موجود ملکہ نفرتیتی کا مجسمہ بھی ہے۔ ساڑھے تین ہزار سال پرانا یہ مجسمہ مصر میں کھدائی کے دوران ملا تھا۔ اس مجسمے کو دیکھنے کے لیے سالانہ ایک ملین سے زائد لوگ جرمنی کے اس میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔ مصر ایک عرصے سے یہ مجسمہ واپس چاہتا ہے۔
رواں برس مئی میں جب جرمن حکام نے ترکی کو انسانی سر والے شیر کے مجسمے کی واپسی کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس واقعے کو مثال نہ بنایا جائے۔ اور ایسا نہ ہوکہ دیگر اقوام بھی اپنے نوادرات واپس مانگنا شروع کردیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی