ہسپانوی حکام نے مراکش میں ایک ایسے گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، جو انتہائی تیز رفتار کشتیوں کی مدد سے فی کس چار ہزار یورو لے کر غیر قانونی تارکین وطن کو آدھ گھنٹے میں اسپین میں داخل کرا دیتا تھا۔
اشتہار
ہسپانوی پولیس کے مطابق یہ گروپ اپنی اس چھوٹی سی مگر انتہائی تیز رفتار کشتی پر ایک تا تین تارکین وطن کو بٹھاتا اور مراکش اور آبنائے جبل الطارق میں صرف پندرہ کلومیٹر کی سمندری پٹی آدھ گھنٹے میں عبور کر کے ان تارکین وطن کو اسپین پہنچا دیتا۔ پولیس کے مطابق اس راستے سے اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد تو نہایت قلیل ہے، تاہم اس انداز کی کشتیوں کے ذریعے اس طرح دراندازی کی کارروائی میں تیزی کا رجحان ہے۔
پاتراس، کھڑے تھے ہم بھی قسمت کے دروازے پر
بلقان راستوں کے بند ہونے کے بعد تارکین وطن براستہ یونان مغربی یورپ میں داخل ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم مشکلات اور رکاوٹوں کے باعث بہت سے پناہ گزین یونان کے ساحلی شہر ’پاتراس‘ میں رک جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
امیدوں کی بندرگاہ
یونانی بندرگاہی شہر پاتراس پر ایک فیری تیار کھڑی ہے۔ پُر امید تارکین وطن اٹلی کے لیے روانہ ہونے والے اس چھوٹے سے بحری جہاز میں سوار ہونے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ پاتراس کی بندرگاہ کو ہی استعمال کرتے ہوئے مہاجرین اٹلی جانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
رات بسر کرنے کے لیے عارضی خیمے
دورانِ سفر تارکین وطن پرانی اور خالی فیکٹریوں کے گودام میں شب بسر کرتے ہیں۔ ان گوداموں میں عارضی خیموں کا انتضام کیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں کے ان گروہوں میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ افراد مہینوں تک موقعے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہر دن کا آغاز ایک نئی امید سے ہوتا ہے کہ شاید آج یہاں یہ آخری شام ہو۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
پہلی رکاوٹ
بندرگاہ کے گرد نصب کی گئی لوہے کی سلاخیں فیری میں سوار ہونے کے لیےکئی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ پاتراس کے ساحل پر سخت حفاطتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اٹلی اور یونان یورپ کے ویزہ فری شینگن زون میں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود اس بندرگاہ پر سخت پاسپورٹ کنٹرول کا نظام قائم کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
’جو پُھرتی دکھائے گا، وہ ہی آگے جائے گا‘
جب تارکین وطن ایک باڑ عبور کرکے بندرگاہ میں داخل ہوجاتے ہیں، تو دوسری رکاوٹ ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ ’جو پُھرتی دکھائے گا‘ شاید وہی آگے جانے میں کامیاب ہوسکے گا۔ موسم گرما کے دوران پاتراس میں موجود سیاحوں کی بھیڑ میں سے تارکین وطن کے لیے گزرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان چھپ چھپا کے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
بحری جہاز نہیں تو ٹرک ہی
یونانی شہر پاتراس میں موجود بیشتر پناہ گزین ٹرک میں چُھپ کر اٹلی جانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ بعض ٹرک ڈرائیور انسانی اسمگلروں کے گروہوں کے ساتھ مل کر بھاری رقم کے عوض پناہ گزینوں کو اٹلی منتقل کرتے ہیں۔ تاہم پکڑے جانے والے انسانی اسمگلروں کو سخت سزا دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
’آنکھ مچولی‘ کے ماہر
پکڑے جانے سے بچنے کے لیے انسانی اسمگلر نت نئے حربے آزماتے ہیں۔ لیکن یونانی پولیس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ٹرک کی چیکنگ کرتے ہیں۔ ایکس رے کیمروں کی مدد سے بندرگاہ پر آنے اور جانے والی گاڑیوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ تاہم معائنہ ایک مخصوص عمل کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Hellenic Coast Guard
پکڑے گئے تو سیدھے گرفتار
ٹرک میں چھپے تارکین وطن کی کھوج کے سلسلے میں یونانی پولیس سدھائے ہوئے کتوں کا استعمال کرتی ہے، جس کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ٹرک میں چھپنے کا عمل خطرے سے خالی نہیں کیونکہ اکثر اوقات تارکین وطن ٹرک کے اندر گھٹن کے باعث دم توڑ جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
قسمت آزمائی کا سلسلہ جاری
زیرحراست غیر قانونی تارکین وطن کو جلد ہی آزاد کرنے کے بعد فوری طور پر بندرگاہ سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن تارکین وطن ایک ہی دن میں گروپ کی شکل میں دو تین مرتبہ بندرگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب بعض تارکین وطن سالوں سال یونان کے شہر پاتراس میں اپنی قسمت کُھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر ایک تارک وطن یہ رکاوٹیں عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دوسروں کی امید مزید مضبوط ہوجاتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اسی طریقے سے منشیات بھی اسپین پہنچاتا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے اسپین پہنچنے والے تارکین وطن یا تو اسپین میں ہیں یا پھر فرانس یا اٹلی منتقل ہو چکے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں یورپ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کیا تھا، جس دوران ایک ملین سے زائد تارکین وطن یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔ ان تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچی تھی اور پھر بلقان کے خطے سے ہوتی ہوئی مغربی اور شمالی یورپی ممالک میں منتقل ہو گئی تھی۔
ان مہاجرین میں سے زیادہ تر نے جرمنی کا رخ کیا تھا۔ تاہم مارچ 2016ء میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی ایک ڈیل کے تحت انقرہ حکومت کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ تارکین وطن کو اپنے ہاں سے بحیرہ ایجیئن عبور کرنے سے روکے۔ اس معاہدے کے بعد اس راستے سے تارکین وطن کی یورپی یونین آمد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم شمالی افریقی ممالک خصوصاﹰ لیبیا سے بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
اس راستے کی بندش کے حوالے سے بھی اٹلی سمیت یورپی یونین کے متعدد ممالک اور لیبیا کے درمیان اتفاق رائے ہے اور اسی تناظر میں تارکین وطن غیرقانونی ذریعے سے یورپی یونین پہنچنے کے لیے دیگر راستے تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
یورپی حکام کے مطابق اسی صورت حال کے سبب شمالی افریقہ سے اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔