بچپن کا ایک خوف مجھے یاد ہے کہ ہماری ڈھوک پر عموما رات کو بھیڑیوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ کہا جاتا کہ جب بھیڑیا آتا ہے تو زمین زلزلے کی مانند ہلتی ہے۔ میرے معصوم تخیل میں بھیڑیے کا قد کسی بڑے تن آور درخت سے بڑا نقش ہو گیا۔ بڑے ہوئے تو کسی ویڈیو میں بھیڑیا دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ یہ تو عام کتے سے کچھ ہی بڑا ہو گا اور اپنے تخیلاتی شاہکار کو یوں کتا ہوتے دیکھا تو کچھ اچھا نہیں لگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھیڑیے کی دہشت بڑی تھی، یہ دہشت صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں پر بھی تھی اور ایسے واقعات اکثر سنائی دیتے کہ کسی ڈھوک پر بھیڑیا آیا اور بکریاں اور دیگر جانور رسیاں تڑوا کر بھاگ گئے۔
اس طرح کا ایک واقعہ میری پیدائش سے پہلے ہماری ڈھوک پر بھی ہوا۔ دادا بتاتے ہیں کہ بھیڑیا آیا اور بکریاں بھیڑیں اس قدر خوفزدہ ہوئیں کہ رسیاں تڑوا کر بھاگ نکلیں۔ یہ ان زمانوں کی بات ہے، جب راتوں میں اندھیرے بہت ہوتے تھے، ایک لالٹین ان خوفناک اندھیروں کا گھر میں تو کچھ مقابلہ کر لیتی لیکن باہر نکلتے ہی ایسا لگتا، جیسے اندھیروں نے اسے دبوچ لیا ہو۔ تو دادا کہتے کہ رات کے اندھیرے میں میں ان کو کہاں ڈھونڈتا؟ رات کو خواب میں جد امجد آئے اور انہوں نے بتایا کہ تمہاری بکریاں اور بھیڑیں فلاں مقام پر ایک غار موافق جگہ پر کھڑی ہوئی ہیں۔
دادا بتاتے ہیں کہ خواب دیکھتے ہی میری آنکھ کھلی تو دل میں ایک اطمینان سا آگیا اور اضطراب جاتا رہا کیونکہ بکریاں یا بھیڑیں اگر اس غار میں تھیں تو انہوں نے وہیں رہنا تھا، میرا یوں رات کو ان کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
پھر دادا سمجھانے کے انداز میں کہتے کہ دیکھ سنگیا (دوست)، جب کوئی جانور خوف کے مارے بھاگتا ہے تو وہ اگر کسی بند جگہ پر پہنچ جائے، جہاں آگے دیوار آ جائے تو وہیں کھڑا رہتا ہے، اس کی ہمت نہیں ہوتی کہ پیچھے جا سکے کیونکہ وہ شدید خوفزدہ ہوتا ہے۔ دادا کہتے ہیں کہ صبح سویر بتائے ہوئے مقام پر پہنچا اور دیکھا تو وہ بکریاں اور بھیڑیں وہیں خوفزدہ حالت میں کھڑی ہوئیں تھیں، جہاں سے بڑی مشکل سے ان کو واپس لایا۔
ہمارے گھر کچے تھے۔ سال میں ایک دو دفعہ چھتوں اور دیواروں پر مٹی کا لیپ کیا جاتا۔ گھر کے اندر چکنی مٹی نما عنصر، جو گاچی سے مماثلت رکھتا تھا، اس کا لیپ کیا جاتا۔ یہ وہی لیپ تھا، جس کو ہم دیواروں سے اتار کر کھاتے رہتے۔ خواتین کے لیے بھی یہ مرغوب 'غذا‘ تھی۔ اس بات کو قارئین میں وہ لوگ آسانی سے سمجھیں گے، جنہوں نے بچپن میں تختی لکھی ہے اور گاچی سے اس تختی کا لیپ کیا ہے کہ شاید کیلشیم کی کمی کی وجہ سے وہ کس قدر لذیذ چیز ہوا کرتی تھی۔
چھتوں پر لیپ کو مٹی لگانا کہتے تھے اور آس پاس کی ڈھوکوں کی خواتین مل کر یہ کام کرتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ فلاں کی ڈھوک پر آج مٹی ہے، وہاں جا رہی ہیں۔ یا دعوت کے لیے آس پاس کے گھروں میں جا کر کہا جاتا کہ فلاں دن ہمارے گھر مٹی ہے آ جانا۔ یوں جس گھر میں مٹی ہوتی وہاں ایک اچھی رونق لگ جاتی۔ مٹی کو لے کر آنا اور اس کو پانی کے ساتھ ملا کر لیپ کے قابل کرنا ایک پیچیدہ عمل تھا۔ مٹی میں بھوسہ ملایا جاتا، جو وافر تھا لیکن اصل قضیہ پانی کا تھا، جو دور دراز کے کنوؤں اور جوہڑوں سے لانا پڑتا۔ ایک گدھا تین گھڑے لاتا۔ خواتین ایسی 'جابر‘ تھیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھے ہیں کہ خواتین اپنے سر دو سے تین گھڑے جبکہ ایک گھڑا بغل میں لیے آ رہی ہیں اور دھیان گھڑے کے بیچ ہے لیکن آپس میں گفتگو بھی پوری زوروں پر ہے۔ یوں سمجھیے کہ اس شعر کی مکمل تصویر تھیں۔
یکسوئی کی بات پنہارن سے سیکھ
سب سکھیوں سے بات کرے پر دھیان گگر کے بیچ
ہائے وہ پنہارنیں کہاں گئیں؟ ہائے وہ اپنی معصوم باتوں کے ساتھ کہیں مٹی میں مٹی ہو گئیں۔ کیا آسماں سر نگوں کر کے کبھی ایسا منظر دوبارہ دیکھ سکے گا، کہاں دیکھ سکے گا؟
بارشیں ہوتیں تو کہا جاتا کہ آج جمعرات کو شروع ہوئی ہے تو اب یہ بارش اگلی جمعرات کو ہی ختم ہو گی۔ چھتوں پر گرمالے سے کیے گئے محبت بھرے مٹی کے لیپ ان طویل جھڑیوں سے مقابلہ نہ کر پاتے اور چھتیں ٹپکنا شروع ہو جاتیں۔ بارش میں جانوروں کو بھی اندر باندھا جاتا اور یوں جگہ مزید کم پڑ جاتی۔
چھت مختلف جگہوں سے ٹپک رہی ہوتی اور نیچے کچے زمین پر گڑھے پڑ جاتے۔ گڑھے میں پڑنے والا ہر قطرہ ٹپ کی آواز پیدا کرتا اور جوں جوں گڑھوں میں اضافہ ہوتا ٹپ ٹپ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ٹپ ٹپ ایک خاص ردھم سے ہوتی، وقت کی کمی نہیں تھی۔
توجہ جزئیات کے لیے ہی مخصوص تھی تو چارپائی پر لیٹے چاروں اطراف آنے والی ٹپ ٹپ میں ایک خاص پیٹرن پیدا کر لیتا۔ اس خوبصورت کھیل کا اختتام تب ہوتا، جب اچانک چہرے پر کوئی ٹپ آ پڑتی۔ پھر چارپائی کو کھینچ کو احتیاط سے ایسی جگہ لے جایا جاتا، جہاں چارپائی جتنی جگہ پر ٹپ نہ ہو رہی ہو۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ چارپائی جتنی جگہ تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔
تصور کیجیے ایک ایسی جگہ کا، جہاں صرف فطرت کی آواز ہے، جنگل ہے، باہر بارش ہے اور بارش کی آواز مسلسل آ رہی ہے اور ایک ٹپ ٹپ ہے، جو باہر کی بارش کی آواز سے جدا شناخت رکھتی ہے اور تیسری آواز جانوروں کی بے چینی تھی، جس کے نتیجے میں وہ کچے فرش پر اپنے پاؤں پر کُھر مارتے رہتے۔ ان تین آوازوں کے علاوہ کیا تھا؟ کچھ نہیں تھا!
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ آوازیں اور پنہارنیں زندہ ہیں۔ یہ آوازیں آج بھی سنی جا سکتی ہیں۔ سائنسی اعتبار سے ان پنہارنوں کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر چالیس نوری برسوں پر کوئی خلائی مخلوق رہتی ہے اور وہ زمین کو کسی آلے کی مدد سے وہاں دیکھ سکتی ہے تو معلوم ہے ان کو کیا نظر آ رہا ہے؟ بارشیں، کچے مکان، ٹپ ٹپ کرتی چھتیں، ادھر ادھر ہوتی چارپائیاں، بے چین جانور، ایک بچہ، متفکر دادا اور بھیڑیے، جن کا قد کسی طور بڑے درخت جتنا نہیں ہے۔