چاند تک پہنچنے کی کوششيں اب باقاعدہ دوڑ کی شکل اختيار کرتی جا رہی ہيں۔ امريکا، چين اور بھارت کے علاوہ يورپ بھی ايسی کوششوں ميں ہے کہ مسقتبل ميں چاند اور مريخ پر ممکنہ مشنوں کے ليے خود کو تيار کيا جائے۔
اشتہار
'اگر کرسٹوفر کولمبس کے پاس امريکا تک پہنچنے کے ليے بحری جہاز نہ ہوتا تو؟‘ يہ سوال حال ہی ميں يورپی اسپيس ايجنسی کے سربراہ نے اٹھايا۔ ان کی مراد يہ تھی کہ اب جبکہ چاند تک پہنچنے کی دوڑ جاری ہے، يورپ کے پاس کوئی خلائی جہاز نہيں جو يورپی خلابازوں کو وہاں تک لے جا سکے۔ نتيجتاً يورپی خلابازوں کو امريکی اور روسی خلائی جہازوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور اس صورت حال ميں تبديلی کی ضرورت ہے۔ يورپی اسپيس ايجنسی (ESA) کے ڈائريکٹر جنرل جوزف ايش بيشر نے چودھويں يورپی اسپيس کانگريس سے اپنے خطاب ميں يہ معاملہ اٹھايا، جو جنوری کے اواخر ميں برسلز ميں منعقد ہوئی۔
امريکی خلائی تحقيقی ادارہ ناسا اپنے 'آرٹيمس‘ پروگرام کے تحت سن 2025 تک چاند تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چين سن 2030 تک اپنے خلابازوں کو چاند کی طرف روانہ کرنا چاہتا ہے اور بھارت گگنيان پروگرام کے تحت اس سال ايک آزمائشی پرواز چاند کی طرف روانہ کر رہا ہے۔
اسی تناظر ميں جوزف ايش بيشر نے کہا، ''سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا ہم يورپی شہريوں کے طور پر خود چاند تک پہنچيں يا ديگر لوگوں کو وہاں پہنچتے ہوئے ديکھتے رہيں؟‘‘ يورپ کے اب تک تيس خلاباز خلا کی جانب جا چکے ہيں، جس کے ليے ان کو امريکی و روسی خلائی جہازوں پر سفر کرنا پڑا۔
سیاروں کی جانب اڑان بھرنے کی خواہش کیوں؟
انسان دہائیوں سے مداروں میں گھومنے والے سیاروں اور کائنات کے درجنوں چاند کی جانب خلائی جہاز روانہ کر رہا ہے۔ کئی ایسے ریسرچ خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا میں دور تک کا سفر
خلائی سفر کے جہاز کچھ نئے نہیں ہیں۔ وینس یا زہرہ سیارے کی جانب اول اول دو فلائی بائز روانہ کی گئی تھیں۔ بیپی کولمبو کو مریخ اور سولر آربیٹر کو سورج کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے پانچ لاکھ پچھتر ہزار کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہیں۔
تصویر: ESA
خلائی جہازوں کو کششِ ثقل کی معاونت
بیپی کولمبو نے مرکری کی بہت خوبصورت تصاویر روانہ کی ہیں۔ زمین کی مداری قوت سے نکلنے کے بعد کسی بھی ایسے خلائی جہاز کو کسی اور سیارے کی مداری قوت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ خلائی جہاز زہرہ کے پاس سے گزرا تو اس کی رفتار قدرے تیز ہو گئی کیونکہ زہرہ کی کشش ثقل نے اس کو نئی قوت دی۔ یہ زہرہ کے مدار سے نکل کر مرکری کی جانب بڑھے گا۔
تصویر: ESA
زہرہ پر سرد جنگ
خلائی سفر کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں ہوئی تھی۔ پہلا خلائی جہاز سویوز سن 1961 میں زہرہ کی جانب روانہ کیا گیا لیکن یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے اپنا مشن روانہ کیا۔ دوسری جانب سن 1978 میں سابقہ سوویت یونین کو زہرہ کے مشن میں کامیابی مل گئی تھی۔ امریکا نے مرکری، مریخ اور مشتری کی جانب خلائی ریسرچ کے جہاز روانہ کیے۔ البتہ سوویت سب سے پہلے چاند تک پہنچے تھے۔
تصویر: NASA/JPL
وائجر خلائی جہاز سیریز
وائجر نامی خلائی جہاز سن 1977 میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیریز کے دو خلائی جہاز نظام شمسی کی معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وائجر اول اور دوئم خلائی جہازوں پر گولڈن ریکارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔ گولڈن ریکارڈ سے مراد وہ ریکارڈ جس پر زمین بارے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے سیاروں کی جانب بھی فلائی بائیز روانہ ہیں، جو نظام شمسی سے باہر نکل چکی ہیں۔
لوگ اکثر زمین کے مدار میں گھومنے والے اکلوتے چاند کی بات بڑی محبت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں اناسی چاند گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک وائجر دوئم خلائی جہاز نے نیپچون سیارے کے پانچ چاند تلاش کیے ہیں۔ مشتری کے چاند کا نام یورپ رکھا گیا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا یورپ چاند کی جانب ایک ریسرچ خلائی جہاز روانہ کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
نظام شمسی کی معلومات کا سفر
مشتری کے اناسی چاند ہیں تو سیٹرن کے بیاسی۔ کاسینی خلائی جہاز کو امریکا اور یورپ کی خلائی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی نے سیٹرن کے بیاسی چاند کی معلومات دی تھیں۔ اس خلائی جہاز سے سیٹرن کے مدار میں گھومتی کئی اشیا کی نشاندہی ہوئی۔ کاسینی نے سیٹرن کے مختلف چاند کو دریافت کیا تھا۔ تیرہ برس تک نظام شمسی میں محو پرواز رہنے کے بعد اسے سیٹرن سے ٹکرایا گیا تھا۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Space Science Institute
بونا سیارہ پلوٹو
وائجر اول اور دوئم نظام شمسی کے انتہائی دور تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک نئے افق کے پاس ہیں۔ مشتری کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی کشش ثقل نے ان کو نئی قوتیں بخشیں۔ مشتری کے بعد ان کا سفر بونے سیارے پلوٹو کی جانب رہا اور پھر یہ کوئپر بیلٹ کی جانب بڑھ گئے۔ پائنیر دس اور گیارہ خلائی جہاز بھی اتنی دوری تک پہنچے تھے۔ ان خلائی جہازوں کے سفر سے خلائی زندگی اور وہاں کی سرزمینوں بارے معلومات حاصل ہوئیں تھیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا کی کوئی حد نہیں
خلا کے لیے کئی دوسرے مشن بھی ہیں۔ ان میں ایک روزیٹا ہے، جو زمین اور مریخ کا چکر کاٹتا ہوا دم دار ستارے شوری کی جانب بڑھ چکا ہے۔ گیاٹو نے دم دار ستارے ہیلی کا سفر کیا تھا۔ ایسے ہی ڈیپ اسپیس وَن، ڈیپ امپیکٹ، اسٹارڈسٹ وغیرہ ہیں۔ مستقبل میں ہیرا کو روانہ کیا جانا ہے اور اس کی منزل اسٹیرائیڈ سسٹم ڈیڈیموس ہے۔ ان سب کو خلا کی تلاش کا جنون قرار دیا جا سکتا ہے۔
تصویر: ESA
8 تصاویر1 | 8
يورپی اسپيس کمپنی آريانے گروپ، جس کی ملکيت ايئر بس اور فرانسيسی گروپ سافران کے پاس ہے، کا دعوی ہے کہ وہ دو مراحل ميں ايک انسان بردار خلائی جہاز تيار کر سکتا ہے۔ فرانسيسی اسپيس ايجنسی کے صدر فيليپے بيپتيستے نے کہا ہے کہ اگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا ديا جائے، تو يہ مستقبل ميں چاند اور مريخ کے ليے مشنوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے مگر ايسا کرنا ہے يا نہيں، يہ يورپ کے ليے ايک سياسی فيصلہ ہے۔
فرانس ميں اسی ماہ سولہ تاريخ کو يورپی اسپيس سمٹ منعقد ہو رہی ہے، جس ميں اس معاملے کا باريکی سے جائزہ ليا جائے گا۔ وزارتی سطح کا ايک اور اجلاس اس سال نومبر ميں طے ہے، جس ميں آئندہ برسوں کے ليے ترجيحات اور بجٹ کا تعين کيا جانا ہے۔