سن 2017ء کی ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چاند کی سطح سے نیچے پانی مرتکز حالت میں موجود ہو سکتا ہے، اب ناسا کے ایک تحقیقی مشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے اس خیال کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
مستقبل میں چاند پر جانے والے مشنز کے لیے اسے ایک نہایت اچھی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل چاند کے لیے بھارتی مشن ’چندریان ون‘ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر ایک مطالعاتی رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ چاند کے سطح کے نیچے پانی موجود ہو سکتا ہے۔ اب ناسا کے ایک تحقیقاتی مشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ چاند کی سطح کے نیچے ’مینٹل‘ کہلانے والے حصے میں تین ایسے کیمیائی مادوں کی شناخت ہوئی ہے، جو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ وہاں پانی جمی ہوئی حالت میں یعنی برف کی صورت میں موجود ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق چاند کے مینٹل میں پانی کا ارتکاز قریب اسی طرح ہے، جس طرح زمین پر ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ زمین کے سطح جسے قشتر کہتے ہیں، کے نتیچے پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہے، جتنی تمام سمندروں کے پانی کی۔
جولائی سن 2017ء میں سائنسی جریدے نیچر ارضیاتی سائنس میں رالف میلکین اور شاؤئی لی کی جانب سے مشترکہ طور پر شائع کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چاند کو ایک طویل عرصے تک ایک خشک ذیلی سیارہ سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم حقیقت اسے سے جدا ہے۔ اس مطالعاتی رپورٹ میں چاند کی تخلیق سے متعلق اس مفروضے پر بحث کی گئی تھی، جس کے تحت کہا جاتا رہا ہے کہ چاند کی تخلیق ممکنہ طور پر مریخ جتنے ایک دوسرے سیارے کے اس وقت کی ابتدائی زمین سے ٹکرانے سے ہوئی تھی۔ ان محققین کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں پیدا ہونے والی حرارت کی وجہ سے پانی اس سیارے سے غائب ہو جاتا جب کہ ایسا ہے نہیں۔ ان سائنس دانوں نے چاند کے مختلف حصوں سے حاصل کردہ نمونوں کی بنیاد پر کہا تھا کہ اس ذیلی سیارے پر پانی موجود ہو سکتا ہے۔
اس مطالعاتی رپورٹ کت مطابق اپالو مشن میں چاند کی سطح سے حاصل کردہ نمونوں میں پانی کی موجودگی کی بنیاد پر کہا گیا تھا کہ اگر پانی وہاں موجود ہو سکتا ہے، تو یقینی طور پر چاند کی سطح کے نیچے زندگی کے لیے اس بنیادی طرز کے مائع کے بڑے ذخائر بھی موجود ہو سکتے ہیں۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکتا ہے کہ چاند پر پانی کس طرح وجود میں آیا یا کہاں سے آیا جب کہ اس بابت میں سوال اٹھائے جا رہے ہی کہ چاند پر جس انداز سے شہابیے گرتے رہے ہیں، ایسی صورت میں پانی کس طرح اپنی موجودگی برقرار رکھ پایا۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چاند کی جانب جانے والے خلانوردوں کو کم از کم زمین سے پانی اپنے ہم راہ لے جانے کی ضرورت نہیں ہو گی، کیوں کہ پانی چاند ہی سے حاصل کیا جا سکے گا۔
ژوناس شؤنفیلڈر، ع ت، الف الف (ایف ایس، ڈی پی اے، اے ایف پی)
انسانی قدم سے پہلے خلا کا سفر انگلیوں نے کیا
چاند پر نیل آرمسٹرانگ کے پہلا قدم رکھنے سے بہت پہلے مصوروں اور لکھاریوں کی انگلیاں اس ’جائنٹ لیپ‘ یا ’دیوتائی چھلانگ‘ کو تصاویر اور ادب میں منتقل کر چکی تھیں۔
تصویر: Diethelm Wulfert
لامحدود فاصلے
چاند پر پہلا قدم رکھنے والے انسان نیل آرمسٹرانگ سے بہت پہلے کئی مصور اور مصنف خلائی سفر کی عکاسی تصاویر اور ادب پاروں میں کر چکے تھے۔ آج کے اسپیس ہیروز جیسے کردار جرمن کہانیوں کی سیریز پیری رہوڈن میں موجود ہیں۔ ایسی کہانیوں کو جدید ادب کے ابتدائی فن پاروں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آسمان کا راستہ
یورپ میں لیونارڈو ڈا وِنچی اور کئی دیگر مصور نشاة ثانیہ کی تحریک کے دوران خلا کو موضوع بنا چکے ہیں۔ اطالوی فلسفی جوردانو برونو نے نظام شمسی اور کائنات میں اس کی ماہیت کو موضوع بنایا تھا۔ اسی بنیاد پر انہیں سن 16 سو میں کیتھولک چرچ نے سزائے موت سنا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance / maxppp
انسان چاند پر
کلیسا ان تمام تر اقدامات کے باوجود سائنس کو دبانے میں ناکام رہا۔ محقق اپنے راستے پر جتے رہے اور لکھاری بھی ان موضوعات پر قلم اٹھاتے رہے۔ 1638 میں انگریز مصنف فرانسس گوڈوِن نے مشہور زمانہ ناول ’مین ان دا مون‘ یا ’انسان چاند پر‘ تحریر کیا۔
تصویر: NASA/Newsmakers
تخیل کا سفر جاری
اسی موضوع پر سن 1828ء تا 1905ء تک زندہ رہنے والے فرانسیسی لکھاری ژولے ویرنے نے اپنا ناول ’فروم ارتھ ٹو دا مُون‘ یا ’زمین سے چاند تک‘ لکھا۔ انہیں اسی ناول کے تناظر میں سائنس فکشن ادب کے بانیوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance / Mary Evans Picture Library
خلا کے موضوع پر پہلی فیچر فلم
سن 1902ء میں خلا کے موضوع کو پہلی مرتبہ بڑی اسکرین پر منتقل کیا گیا۔ اس فلم میں زمین سے چاند تک کے تصوراتی سفر کی عکاسی کی گئی۔ اس فلم میں خلا نوردوں کو ایک کیپسول کے ذریعے چاند تک پہنچتے دکھایا گیا۔ اس فلم کے مناظر بعد میں بار بار مختلف حوالوں کے لیے بھی استعمال ہوتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سیاہ چوکور
روسی مصور کاسیمیر مالیوِچ نے سن 1914 اور 1915 کے درمیان ایک تجریدی پینٹنگ بنائی، جس میں تمثیلی انداز میں بے وزنی کی کیفیت دکھائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راکٹ کا جنون
سن 1929ء میں شہرہ آفاق ہدایت کار فریٹس لانگ نے ’عورت چاند پر‘ کے موضوع پر فلم بنائی۔ اس فلم کے بعد جرمنی میں خلا میں سفر کا بے انتہا جنون پیدا ہوا اور خلائی تحقیق پر توجہ دی جانے لگی، تاہم دوسری عالمی جنگ نے جرمنی میں چاند کے سفر کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔
تصویر: picture-alliance/KPA
خلائی جہاز ستاروں کے راستے پر
امریکا میں سن 1969ء میں چاند پر اترنے سے قبل سٹار ٹریک نامی فلم منظرِ عام پر آ چکی تھی، تاہم چاند پر انسانی قدم پڑ جانے کے باوجود آگے سے آگے کی خواہش مزید بڑھتی چلی گئی۔ اپالو گیارہ کے ذریعے چاند تک انسان کو لے جانے اور واپس زمین پر پہنچا دینے کے کامیاب سفر کے بعد انسانی نگاہ دیگر سیاروں کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ تاہم مصنفین اور مصوروں کے قلم یہاں بھی سائنسدانوں سے آگے ہی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یوایف او ہاؤس
1968ء فن لینڈ کے ماہر تعمیرات ماتی سرونن نے سائنس فکشن سے متاثر ہوتے ہوئے دائرہ نما مکان تعمیر کیا، جسے یو ایف او ہاؤس کا نام دیا گیا۔ جرمن فنکار اور خلا ئی موضوعات پر تخیل دوڑانے والے چارلس ویلپ اسی عمارت میں بیٹھا کرتے تھے۔
تصویر: cc-by-sa-Martin Vogel
ستاروں کی گرد سے فن پارے
جرمن مصورہ اُلریکے آرنولڈ نے خلا کو اپنے فن کا موضوع بنایا۔ انہوں نے سیارچوں کی گرد اور کائناتی مادوں کو اپنی پینٹنگز کا حصہ بنایا۔ انہوں نے ریت کو رنگوں میں شامل کر کے جنت اور جہنم اور خلا و کائنات کے دیگر کئی مناظر کی عکاسی بھی کی۔