امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا اور وفاقی جوہری تحقیقی لیبارٹریز نے چاند پر جوہری پلانٹ کی تنصیب کے لیے تجاویز طلب کی کی ہیں۔
اشتہار
ناسا اور امریکی جوہری تحقیقی ادارے کی جانب سے چاند کی سطح پر انشقاقی جوہری بجلی گھر کی تنصیب سے متعلق تجاویز اور پیشکشیں مانگی گئی ہیں۔ خلائی تحقیقاتی ادارہ ناسا، امریکی محکمہ برائے توانائی کے آئیڈاہو میں قائم نیشنل لیبارٹریزیز کے اشتراک سے چاند پر جوہری بجلی گھر کی تنصیب کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ یہ منصوبہ رواں دہائی کے اختتام تک چاند پر اترنے والے مشنز کے لیے چاند پر قیام کی راہ ہم وار کرنا ہے۔
فشن سرفیس پاور پروجیکٹ کی قیادت کرنے والے سیباستیان کوربیسیرو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد چاند پر ایک قابل اعتبار ہائی پاور سسٹم کا قیام ہے، جو انسانی خلائی عزائم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر چاند کی سطح پر جوہری ری ایکٹر کی تنصیب کا منصوبہ کامیاب رہا تو ایسا ہی منصوبہ مریخ کے لیے ترتیب دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان چاند کی سطح پر اترنے کے بعد وہاں طویل عرصے تک قیام کر سکے۔ ناسا کا خیال ہے کہ ماحولیاتی حالات سے قطع نظر چاند یا مریخ پر بجلی گھر ہونا چاہیں تاکہ انسان ان اجرام فلکی پر طویل مدتی قیام کر سکے۔
ناسا کے خلائی ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر جم رئوٹر کے مطابق جوہری بجلی گھر نظام کی تنصیب چاند اور مریخ سے متعلق مستقبل کے انسانی منصوبوں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ جوہری بجلی گھر زمین پر تیار کرنے کے بعد تیار حالت میں اسے چاند کی جانب روانہ کیا جائے گا۔ یہ جوہری ری ایکٹر یورینیم ایندھن پر منحصر ہو گا، جب کہ تھرمل مینیجمنٹ نظام اس ری ایکٹر کو ٹھنڈا رکھنے میں معاونت دے گا۔ اس جوہری پلانٹ کے ذریعے چاند کی سطح پر چالیس کلوواٹ بجلی اگلے دس سال تک بنائی جائے گی۔
اس نظام میں چاند کے مدار میں موجود خلائی جہاز سے اسے کنٹرول کرنے اور خودکار انداز سے بند ہونے اور چلنے جیسے خواص بھی تجاویز میں مانگے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ناسا نے چاند کی سطح پر اترنے والے جہاز سے اس بجلی گھر کے جدا ہونے اور موبائل نظام کی طرح کام کرنے اور چاند کے مختلف مقامات پر باآسانی منتقل کرنے جیسی خصوصیات بھی تجاویز میں طلب کی ہیں۔
سیاروں کی جانب اڑان بھرنے کی خواہش کیوں؟
انسان دہائیوں سے مداروں میں گھومنے والے سیاروں اور کائنات کے درجنوں چاند کی جانب خلائی جہاز روانہ کر رہا ہے۔ کئی ایسے ریسرچ خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا میں دور تک کا سفر
خلائی سفر کے جہاز کچھ نئے نہیں ہیں۔ وینس یا زہرہ سیارے کی جانب اول اول دو فلائی بائز روانہ کی گئی تھیں۔ بیپی کولمبو کو مریخ اور سولر آربیٹر کو سورج کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے پانچ لاکھ پچھتر ہزار کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہیں۔
تصویر: ESA
خلائی جہازوں کو کششِ ثقل کی معاونت
بیپی کولمبو نے مرکری کی بہت خوبصورت تصاویر روانہ کی ہیں۔ زمین کی مداری قوت سے نکلنے کے بعد کسی بھی ایسے خلائی جہاز کو کسی اور سیارے کی مداری قوت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ خلائی جہاز زہرہ کے پاس سے گزرا تو اس کی رفتار قدرے تیز ہو گئی کیونکہ زہرہ کی کشش ثقل نے اس کو نئی قوت دی۔ یہ زہرہ کے مدار سے نکل کر مرکری کی جانب بڑھے گا۔
تصویر: ESA
زہرہ پر سرد جنگ
خلائی سفر کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں ہوئی تھی۔ پہلا خلائی جہاز سویوز سن 1961 میں زہرہ کی جانب روانہ کیا گیا لیکن یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے اپنا مشن روانہ کیا۔ دوسری جانب سن 1978 میں سابقہ سوویت یونین کو زہرہ کے مشن میں کامیابی مل گئی تھی۔ امریکا نے مرکری، مریخ اور مشتری کی جانب خلائی ریسرچ کے جہاز روانہ کیے۔ البتہ سوویت سب سے پہلے چاند تک پہنچے تھے۔
تصویر: NASA/JPL
وائجر خلائی جہاز سیریز
وائجر نامی خلائی جہاز سن 1977 میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیریز کے دو خلائی جہاز نظام شمسی کی معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وائجر اول اور دوئم خلائی جہازوں پر گولڈن ریکارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔ گولڈن ریکارڈ سے مراد وہ ریکارڈ جس پر زمین بارے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے سیاروں کی جانب بھی فلائی بائیز روانہ ہیں، جو نظام شمسی سے باہر نکل چکی ہیں۔
لوگ اکثر زمین کے مدار میں گھومنے والے اکلوتے چاند کی بات بڑی محبت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں اناسی چاند گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک وائجر دوئم خلائی جہاز نے نیپچون سیارے کے پانچ چاند تلاش کیے ہیں۔ مشتری کے چاند کا نام یورپ رکھا گیا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا یورپ چاند کی جانب ایک ریسرچ خلائی جہاز روانہ کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
نظام شمسی کی معلومات کا سفر
مشتری کے اناسی چاند ہیں تو سیٹرن کے بیاسی۔ کاسینی خلائی جہاز کو امریکا اور یورپ کی خلائی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی نے سیٹرن کے بیاسی چاند کی معلومات دی تھیں۔ اس خلائی جہاز سے سیٹرن کے مدار میں گھومتی کئی اشیا کی نشاندہی ہوئی۔ کاسینی نے سیٹرن کے مختلف چاند کو دریافت کیا تھا۔ تیرہ برس تک نظام شمسی میں محو پرواز رہنے کے بعد اسے سیٹرن سے ٹکرایا گیا تھا۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Space Science Institute
بونا سیارہ پلوٹو
وائجر اول اور دوئم نظام شمسی کے انتہائی دور تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک نئے افق کے پاس ہیں۔ مشتری کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی کشش ثقل نے ان کو نئی قوتیں بخشیں۔ مشتری کے بعد ان کا سفر بونے سیارے پلوٹو کی جانب رہا اور پھر یہ کوئپر بیلٹ کی جانب بڑھ گئے۔ پائنیر دس اور گیارہ خلائی جہاز بھی اتنی دوری تک پہنچے تھے۔ ان خلائی جہازوں کے سفر سے خلائی زندگی اور وہاں کی سرزمینوں بارے معلومات حاصل ہوئیں تھیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا کی کوئی حد نہیں
خلا کے لیے کئی دوسرے مشن بھی ہیں۔ ان میں ایک روزیٹا ہے، جو زمین اور مریخ کا چکر کاٹتا ہوا دم دار ستارے شوری کی جانب بڑھ چکا ہے۔ گیاٹو نے دم دار ستارے ہیلی کا سفر کیا تھا۔ ایسے ہی ڈیپ اسپیس وَن، ڈیپ امپیکٹ، اسٹارڈسٹ وغیرہ ہیں۔ مستقبل میں ہیرا کو روانہ کیا جانا ہے اور اس کی منزل اسٹیرائیڈ سسٹم ڈیڈیموس ہے۔ ان سب کو خلا کی تلاش کا جنون قرار دیا جا سکتا ہے۔
تصویر: ESA
8 تصاویر1 | 8
ناسا کی جانب سے مانگی گئی تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ یہ بجلی گھر چار میٹر سیلنڈر کے اندر سما سکے اور چھ میٹر سے زیادہ لمبا نہ ہو جب کہ اس کا وزن بھی چھ ہزار کلوگرام سے زیادہ نہ ہو۔ ناسا کو یہ ڈیزائن اور تجاویز اگلے برس 19 فروری تک بھیجی جا سکیں گی۔
واضح رہے کہ آئیڈاہو نیشنل لیبارٹری ماضی میں بھی ناسا کے متعدد منصوبوں کا حصہ رہی ہے۔ حال ہی میں ناسا کے مریخ بھیجے گئے روور 'پرزروینس‘ میں اس لیبارٹری کے سائنسدانوں نے ریڈیو آئیسوٹوپ جوہری نظام نصب کرنے میں مدد دی تھی۔ کار جتنی جسامت والا یہ روور رواں برس فروری میں مریخ پر اترا تھا اور تب سے یہ نظام وہاں کام کر رہا ہے۔