سائنسدانوں نے چاند کی مٹی میں پودے اگانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔ اس سے اب یہ امید ہو چلی ہے کہ مستقبل میں چاند پر خوراک اگائی جا سکے گی اور پانی تیار کیا جا سکے گا۔
اشتہار
فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین نے چاند کی مٹی میں پودے اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور ان میں سے ایک محقق نے تو یہ دعویٰ تک کیا ہے کہ اس مٹی میں 'خلا کی تسخیر کے خواب کی تعبیر کا مواد‘ بھی موجود ہے۔
جرنل کمیونیکشن بائیولوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ مطالعہ مستقبل میں چاند کے لیے بھیجے جانے والے مشنز پر اثرات مرتب کرے گا۔
اس تحقیقی رپورٹ کے شریک مصنف راب فیرل کے مطابق محققین چاند کی جانب بھیجے جانے والے خلانوردوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ زمین سے خوراک کی مسلسل ترسیل کی بجائے چاند ہی پر اپنی خوراک خود پیدا کر سکیں۔
فیرل کے مطابق، ''جب انسان ایک تہذیب کے طور پر کہیں جاتا ہے، تو یہ سفر فقط چند دنوں کا نہیں ہوتا بلکہ وہاں قیام کا ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی زراعت ساتھ لے جانا بہت ضروری ہے۔‘‘
خلانوردوں کے لیے غذائی سیکورٹی کے علاوہ سائنسدانوں نے اس عمل کے دیگر فوائد بھی بتائیں ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ غذا خود اگانے کا یہ عمل چاند پر موجود خلانورد ہوا کو صاف کرنے، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے اور صاف پانی پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
چاند کی مٹی میں پودے کیسے اگائے گئے؟
سائنسدانوں نے چاند کی مٹی میں عربیڈوپسس پودے اگائے۔ چاند کی یہ مٹی پچاس برس قبل زمین پر لائی گئی تھی۔ سن 1969 کے اپالوگیارہ اور اپالو بارہ اور 1972 کے اپالو 17 مشنز کے ذریعے چاند کی یہ مٹی خلانورد ساتھ لائے تھے۔
اس تجربے میں ایک گرام مٹی والے کنٹینر میں بیج دبائے گیے اور انہیں سورج کی روشنی اور غذائیت دی گئی۔ سائنسدانوں نے آتش فشانی خاک کو بھی بیج دبا کر پودے حاصل کرنے کے اس تجربے کا حصہ بنایا کیوں کہ آتش فشانی خاک کے عناصر چاند کی مٹی سے ملتے جلتے ہیں۔
سیاروں کی جانب اڑان بھرنے کی خواہش کیوں؟
انسان دہائیوں سے مداروں میں گھومنے والے سیاروں اور کائنات کے درجنوں چاند کی جانب خلائی جہاز روانہ کر رہا ہے۔ کئی ایسے ریسرچ خلائی جہاز نظام شمسی کی حدود سے بھی باہر نکل چکے ہیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا میں دور تک کا سفر
خلائی سفر کے جہاز کچھ نئے نہیں ہیں۔ وینس یا زہرہ سیارے کی جانب اول اول دو فلائی بائز روانہ کی گئی تھیں۔ بیپی کولمبو کو مریخ اور سولر آربیٹر کو سورج کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے پانچ لاکھ پچھتر ہزار کلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہیں۔
تصویر: ESA
خلائی جہازوں کو کششِ ثقل کی معاونت
بیپی کولمبو نے مرکری کی بہت خوبصورت تصاویر روانہ کی ہیں۔ زمین کی مداری قوت سے نکلنے کے بعد کسی بھی ایسے خلائی جہاز کو کسی اور سیارے کی مداری قوت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ یہ خلائی جہاز زہرہ کے پاس سے گزرا تو اس کی رفتار قدرے تیز ہو گئی کیونکہ زہرہ کی کشش ثقل نے اس کو نئی قوت دی۔ یہ زہرہ کے مدار سے نکل کر مرکری کی جانب بڑھے گا۔
تصویر: ESA
زہرہ پر سرد جنگ
خلائی سفر کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں ہوئی تھی۔ پہلا خلائی جہاز سویوز سن 1961 میں زہرہ کی جانب روانہ کیا گیا لیکن یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے اپنا مشن روانہ کیا۔ دوسری جانب سن 1978 میں سابقہ سوویت یونین کو زہرہ کے مشن میں کامیابی مل گئی تھی۔ امریکا نے مرکری، مریخ اور مشتری کی جانب خلائی ریسرچ کے جہاز روانہ کیے۔ البتہ سوویت سب سے پہلے چاند تک پہنچے تھے۔
تصویر: NASA/JPL
وائجر خلائی جہاز سیریز
وائجر نامی خلائی جہاز سن 1977 میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس سیریز کے دو خلائی جہاز نظام شمسی کی معلومات جمع کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ وائجر اول اور دوئم خلائی جہازوں پر گولڈن ریکارڈ بھی رکھے گئے ہیں۔ گولڈن ریکارڈ سے مراد وہ ریکارڈ جس پر زمین بارے معلومات جمع کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے سیاروں کی جانب بھی فلائی بائیز روانہ ہیں، جو نظام شمسی سے باہر نکل چکی ہیں۔
لوگ اکثر زمین کے مدار میں گھومنے والے اکلوتے چاند کی بات بڑی محبت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ نظام شمسی کے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں اناسی چاند گھوم رہے ہیں۔ ابھی تک وائجر دوئم خلائی جہاز نے نیپچون سیارے کے پانچ چاند تلاش کیے ہیں۔ مشتری کے چاند کا نام یورپ رکھا گیا ہے۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا یورپ چاند کی جانب ایک ریسرچ خلائی جہاز روانہ کرنے کی پلاننگ کیے ہوئے ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
نظام شمسی کی معلومات کا سفر
مشتری کے اناسی چاند ہیں تو سیٹرن کے بیاسی۔ کاسینی خلائی جہاز کو امریکا اور یورپ کی خلائی ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی نے سیٹرن کے بیاسی چاند کی معلومات دی تھیں۔ اس خلائی جہاز سے سیٹرن کے مدار میں گھومتی کئی اشیا کی نشاندہی ہوئی۔ کاسینی نے سیٹرن کے مختلف چاند کو دریافت کیا تھا۔ تیرہ برس تک نظام شمسی میں محو پرواز رہنے کے بعد اسے سیٹرن سے ٹکرایا گیا تھا۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Space Science Institute
بونا سیارہ پلوٹو
وائجر اول اور دوئم نظام شمسی کے انتہائی دور تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک نئے افق کے پاس ہیں۔ مشتری کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی کشش ثقل نے ان کو نئی قوتیں بخشیں۔ مشتری کے بعد ان کا سفر بونے سیارے پلوٹو کی جانب رہا اور پھر یہ کوئپر بیلٹ کی جانب بڑھ گئے۔ پائنیر دس اور گیارہ خلائی جہاز بھی اتنی دوری تک پہنچے تھے۔ ان خلائی جہازوں کے سفر سے خلائی زندگی اور وہاں کی سرزمینوں بارے معلومات حاصل ہوئیں تھیں۔
تصویر: NASA/New Horizons
خلا کی کوئی حد نہیں
خلا کے لیے کئی دوسرے مشن بھی ہیں۔ ان میں ایک روزیٹا ہے، جو زمین اور مریخ کا چکر کاٹتا ہوا دم دار ستارے شوری کی جانب بڑھ چکا ہے۔ گیاٹو نے دم دار ستارے ہیلی کا سفر کیا تھا۔ ایسے ہی ڈیپ اسپیس وَن، ڈیپ امپیکٹ، اسٹارڈسٹ وغیرہ ہیں۔ مستقبل میں ہیرا کو روانہ کیا جانا ہے اور اس کی منزل اسٹیرائیڈ سسٹم ڈیڈیموس ہے۔ ان سب کو خلا کی تلاش کا جنون قرار دیا جا سکتا ہے۔
تصویر: ESA
8 تصاویر1 | 8
سائنسدانوں کے مطابق 48 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں ان دونوں گروپس میں مثبت نشوونما دیکھی گئی، تاہم چند روز بعد دیکھا گیا کہ چاند کی مٹی میں اگنے والے پودے قدرے دباؤ کا شکار ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق آتش فشانی خاک میں اگائے جانے والے عربیڈوپسس کے مقابلے میں چاند کی مٹی میں اگائے جانے والا عربیڈوپسس نشوونما میں بہت پیچھے دیکھا گیا۔ تاہم فیرل کے مطابق اس مٹی میں پودے کا اگ جانا خود ہی میں ایک مثبت دریافت ہے۔