چاول نہ اگائیں، پانی بچائیں
27 نومبر 2015بھارت میں مختلف مقامات پر مقامی حکومتی عہدیدار کسانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ چاول کی بجائے آئل سیڈز اور دیگر اجناس اگائیں، تاکہ زیرزمین پانی کی خطرناک حد تک گرتی سطح کو کسی طرح بچایا جا سکے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تاہم کسان حکومتی اپیل پر کان دھرتے نظر نہیں آتے۔ روئٹرز کے مطابق حکومت کو پانی زیادہ استعمال کرنے والی فصلوں کی بجائے کسانوں کو دیگر فصلوں کی جانب لے جانے کے لیے حکومت کو مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
گزشتہ تیس برس سے بھارت کو پے در پے خشک سالی کا سامنا رہا ہے اور ملک کے شمال میں متعدد دیہات رفتہ رفتہ پانی کی کمی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے اب وہاں انسانوں کی ضرورت اور زراعت دونوں کے لیے پانی زیادہ دستیاب نہیں۔ ماہرین کی جانب سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر پانی کی کم ہوتی سطح کا تدارک نہ کیا گی، تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔
بھارت کے زرعی معاشیات کے ماہر اشوک گُلاٹی کے مطابق، ’’ایسا نہیں ہو گا کہ بھارت میں اگلے برس بھی خشک سالی رہے گی، کیوں کہ اب تک کبھی مسلسل تین برس تک خشک سالی نہیں ہوئی۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سخت موسم اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم آج نہ جاگے، تو خاکم بہ دہن کل ہو سکتا ہے یہ کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر کسی ریلوے اسٹیشن پر مزدوری کرتے نظر آئیں۔‘‘
بھارت کی سوا ارب آبادی میں سے دو تہائی سے زائد اب بھی دیہات میں آباد ہے، تاہم پانی کی قلت کا مطلب یہ ہو گا کہ ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ متاثر ہو گا اور خوراک کی ترسیل بھی کمی کا شکار ہو جائے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب عالمی رہنما اگلے ہفتے پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں، جس میں کسی ایسی ڈیل تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی، جس کے ذریعے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی لائے جائے۔ بھارت کا موقف ہے کہ اس کے ہاں زراعت اور پانی کا شعبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔