1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاکلیٹ کِس: منفرد پیسٹری بنانے پر مقامی میڈیا پر شور مچ گیا

17 فروری 2020

مغربی جرمن شہر کولون کی ایک بیکری کو نسلی تعصب کے الزام کا سامنا ہے۔ چمکتی سیاہ رنگ کی اس پیسٹری پر انسانی چہرے کے نقوش بنائے گئے ہیں۔

Symbolbild Schokokuss
تصویر: Imago-Images/Westend61

بیکری پر بنائی جانے والی بعض پیسٹریوں پر بنے نقوش کو پوری طرح چاکلیٹ کی کوٹنگ دی گئی ہے۔ ان پر انکھیں، ناک اور موٹے سرخ ہونٹ واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں پیسٹری پر بنائے گئے انسانی نقوش کے سر پر عثمانی دور حکومت کی ٹوپی بھی بنائی گئی ہے۔

اسی طرح سفید پیسٹریوں پر بنائے گئے چہروں پر عینک دھرنے کے ساتھ ساتھ سر پر ترکی ٹوپی پہنائی گئی ہے۔ عثمانی دور حکومت میں یہ ٹوپی ترک لوگوں میں بہت مقبول تھی۔ ان پیسٹریوں کے لیے بیکری نے نام 'چاکلیٹ کِس‘ یا چاکلیٹ کا بوسہ رکھا ہوا ہے۔

ایسی پیسٹریوں کو جرمنی میں مقبولیت حاصل ہے اور خاص طور پر کارنیوال کے دوران یعنی ماہِ فروری میں تیار کی جاتی ہیں۔ ان پیسٹریوں کا پرانا نام 'مُورش کوپف‘ یا مُور کا سر تھا لیکن مسلم ریفرنس کی وجہ سے انہیں نیا نام دیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ میں یورپ اور شمالی افریقہ میں آباد مسلمانوں کو 'مُور‘ کہا جاتا تھا۔

کارنیوال کے دنوں میں مختلف بیکریاں انواع و اقسام کی پیسٹریاں، بسکٹس اور کیکب ناتے ہیںتصویر: AP

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے بڑے شہر کولون میں واقع بیکری نے ان پیسٹریوں کو ' کارنیوال کے دلچسپ سر‘ قرار دے ایک مخصوص حصے میں سجا کر رکھا ہے۔ رواں برس سوشل میڈیا پر ان پیسٹریوں کے حوالے سے بحث خاتون مصنفہ اور کالم نگار یاسمینہ کوہنکے عرف کوارٹرو ملف کی جانب سے ایک پیسٹری کی تصویر اپنی دوست کو بھیجنے پر شروع ہوا۔ انہوں نے ان پیسٹریوں کی صورت پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا۔ اس ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر شدید ہلچل پیدا کر دی۔

سوشل میڈیا پر جاری تنقیدی بحث کے جواب میں اخبار 'کولن اشٹٹ انزائیگر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے پیسٹریاں بنانے والی بیکری 'فرامے پیسٹری شاپ‘ کے مالک گریگور فرامے کا کہنا ہے کہ کارنیوال میں ایسی پیسٹریاں بنانے کی روایت سن 1960 سے جاری ہے۔ فرامے کے مطابق ان پیسٹریوں کو ماضی کی طرح کارنیوال کے دوران لوگوں کے پہناووں کے رنگ میں سجایا جاتا ہے۔

گریگور فرامے کا مزید کہنا ہے، ''ان پیسٹریوں کو بنانے میں کوئی نسلی تعصب موجود نہیں ہے اور دوکان پر ایشیائی اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ آتے ہیں لیکن ان لوگوں کی جانب سے یا انہوں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی ہے۔‘‘ بیکری کے مالک نے یہ ضرور واضح کیا کہ وہ موجودہ صورت میں وہ اس روایت کو برقرار رکھنے پر غور کریں گے۔

سُوژی میلیسا برونرسُم (ع ح ⁄ ا ب ا)

’کولون کارنیوال‘ کی تیاریاں عروج پر

01:11

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں